زیادہ سوچنا اور دماغ پر دباؤ ڈالنا صحت کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟

6 Aug, 2024 | 08:47 AM

  ویب ڈیسک:  سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بہت زیادہ سوچنے اور دماغ پر دباؤ ڈالنے سے ذہنی تناؤ اور غصہ آتا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ بہت زیادہ سوچنے اور دماغ پر دباؤ ڈالنے سے ذہنی تناؤ اور غصہ آتا ہے جو صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے حالات میں دباؤ میں آنے کے بجائے معاملات کو آسان اور سکون کے ساتھ لینا چاہیے کیونکہ بہت زیادہ  سوچنے اور غصے سے دماغ پر دباؤ پڑتا ہے۔

زیادہ سوچنے والےلوگ دو قسم کے خیالات میں مگن ہوتے ہیں؛ یا تو وہ ماضی کے کسی واقعے کی راکھ کرید رہے ہوتے ہیں یا پھرمستقبل کی ان دیکھی دنیا میں بھٹک رہےہوتےہیں۔ ان کی شخصیت ایک خول میں بند ہوکر رہ جاتی ہے ،موجودہ کام سے ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔اگر کسی نشست میں ہیں تو گفتگو بے ربط ہو جاتی ہے۔ غائب دماغی کی وجہ سے کھل کراپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے اور ان دیکھے خوفوں میں مبتلا ہو کر بے خوابی، چڑ چڑے پن اور بتدریج دیگرکئی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب ہم زیادہ سخت ذہنی کوشش کرتے ہیں تو ہم فوری طور پر تناؤ اور غصے میں آجاتے ہیں۔اس تحقیق کو دی انپلیزنٹنیس آف تھنکنگ کا نام دیا گیا ہے اور 170 اسٹڈیز میں 29 ملکوں کے 4670 افراد کا تجزیہ کیا گیا۔ نیدرلینڈز کی ریڈ باؤڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مصنف ڈاکٹر ایرک بجلویلڈ کا کہنا ہے کہ اس سے یہ پتہ چلا کہ لوگ جب زیادہ مشکل اہداف پر کام کرتے ہیں تو وہ زیادہ فرسٹریشن اور غصہ محسوس کرتے ہیں انکے مطابق عمومی طور پر لوگ ذہنی کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں۔

نقصانات:
زیادہ سوچنے سے stress ہوتا ہے جس کے باعث cortisol میں کمی آجاتی ہے اور یہ کمی دماغی صلاحیت کوکم کر دیتی ہے،حتٰی کہ یہ دماغ کے سیلزختم کرکے اسے چھوٹا بھی کرسکتا ہے۔  اس کائنات کی سب سے قیمتی چیز وقت ہےجس کا صحیح استعمال انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتاہے۔ ہمہ وقت غیر ضروری سوچوں میں غرق انسان گھنٹوں اس کیفیت میں گزار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی ذاتی زندگی کے امور بےضابطہ اور بے قاعدہ ہو جاتے ہیں۔  زیادہ سوچنے والے بالعموم بے خوابی کا اآسان شکار ہوتے ہیں۔ جو کہ بذاتِ خود کئی دیگر نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔

 مایوس کن خیالات انسان کو بد مزاج اور چڑچڑ ا بنا دیتی ہے۔ بے مقصد باتوں پہ بے سود تجزیےکرنے سے وہ چڑچڑے پن کے ساتھ سا تھ،حافطے کی کمزوری ، سست روی ، ڈیپریشن bipolar disorder اور schizophreniaجیسے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر سال آٹھ لاکھ لوگ ڈیپریشن اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

 زیادہ سوچنے والا انسا معاشرے کا ناکارہ پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ سماجی تنہائی کا شکار ہو کر اپنےسوشل سرکل میں ناپسندیدہ گردانا جاتا ہے۔  پیشہ وارانہ امور میں کارگردگی بری طرح متاثر ہوتی ہےجیسے اگر آپ کسی میکینکل مشین پر کام کر رہے ہیں تو آپ کا ہاتھ اس کے کسی حصے میں آسکتا ہےاور اگر آپ بینک یا مالی امور کا کام کر رہے ہیں تو آپ کی ایک ہندسے کی غلطی سے کروڑوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔

 انتہائی چھوٹے چھوٹے معاملات پر بلاوجہ پریشان ہو جاتا ہے،اسے معمولی کام بھی پہاڑ لگنے لگتا ہے۔  اس سے  creative skillsبھی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

علاج:

اس لیے انسان کو چاہیے کہ  جب بھی غیر ضروری خیالات ستایئں تو اپنی توجہ اور رجحانات کسی مثبت سر گرمی کی طرف مصروف کردیں، اس سےذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ منفی خیالات کے تسلسل سے نکلنے اور طبیعت خوشگوار کرنے کےلئے اپنے ارد گرد کاما حول تبدیل کر نا از حد ضروری ہے۔فطرت کے مناظر پہ غور کریں۔سبزہ ،آسمان،جھیل ،پہاڑ اور راہ چلتے شرارتیں کرتے بچے آپ کو پریشان کن خیالات سے نکال کر مسکرانے پہ مجبور کر دیں گے۔

 مایوسی کفر ہے، اس کو خود سے دور رکھیں ۔اگر ناکام ہوگئے تو کیا ہوا کیونکہ ْ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میںٗ ،زندگی تو چلتی رہتی ہے اور کامیابی ناکامی تو اس زندگی کے رنگ ہیں۔  تقریباًدنیا کا ہر انسان مشکل وقت میں مذہب کا رخ کرتا ہے سو روحانیت سے رابطہ اختیار کریں۔ نماز بکھرے خیالات کومرتکز کرنے کی بہترین مشق ہے جو ہم روزانہ دن میں 5 بار کر سکتے ہیں۔اس مشق کو پیمانہ بنا کر باقی معاملات میں بھی یکسوئی لائی جا سکتی ہے۔

 ماضی کے پریشان کن خیالات سے پیچھا چھڑانا نہایت ضروری ہے، اس کے لیے چیزوں کو بڑے فریم میں دیکھیں کہ وہ خاص بات یا واقعہ اب آپ کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا ہےجس کی سوچ نے آپ کو hang کر رکھا ہے۔ ایسی صحبت میں بیٹھیں جو یاسیت اور مایوسی کی بجائے امید کی بات کریں ،جوپریشانیوں کو ہلکے پھلکے انداز سے حل کرنے اور کھل کر قہقہے لگانے والے ہوں۔

مزیدخبریں