فرزانہ صدیق: اسلام آباد کے سول جج کی اہلیہ چودہ سالہ گھریلو ملزمہ تشدد کے کیس میں شاملِ تفتیش ہو گئی۔
ملزمہ سومیہ عاصم نے خصوصی ٹیم کے سامنے ہ صرف جرم سے انکار کردیا ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسلسل کئی ہفتوں تک جانوروں سے بدتر تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن بچی رضوانہ اس کے گھر پر ملازمت ہی نہیں کرتی تھی۔ نہ ہی کام کرتی تھی بلکہ بچی کو ہم نے تربیت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ ملزمہ سومیہ عاصم نے دعویٰ کیا کہ اس نے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے سبب بری طرح زخمی بچی رضوانہ کی والدہ کو اب تک جو ساٹھ ہزار روپے بھیجے وہ تو امداد کے طور پر بھیجے تھے۔
ملزمہ سومیہ عاصم نے اقرار کیا کہ اس نے مضروبہ بچی کی والدہ کو پیسے اپنے شوہر سول جج کے ایزی پیسہ اکاونٹ سے بھیجے تھے۔ ملزمہ سومیہ عاصم نے تفتیشی افسروں کے سوالات کے جواب میں یہ بھی کہا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا بلکہ اسےسکن الرجی تھی۔
ملزمہ سومیہ عاصم نے دعویٰ کیا کہ بچی کے سر پر چوٹ کیسے لگی ہمیں نہیں معلوم۔ بچی آنکھوں اور جسم پرخارش کرتی رہتی تھی، بچی کو دوا لا کردی لیکن وہ دوا آنکھوں یا جلد پر نہیں لگاتی تھی، بچی کو ڈنڈے مارنے سے پھیپھڑوں کا انفیکشن تو نہیں ہونا تھا، بچی کا بازو ہمارے گھر سے ٹوٹا ہوا نہیں گیا۔سپیشل جے آئی ٹی نے ملزمہ سے تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔ ملزمہ سومیہ عاصم اپنی کم سن گھریلو ملازمہ تشدد کے کیس میں عبوری ضمانت پر ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کے پاس اپنی صفائی میں کوئی جواب نہیں تھا، جج کی اہلیہ سے بچی پرتشدد کی وجہ پوچھی گئی تو جواب میں ملزمہ نے الٹا الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔
سول جج کی اہلیہ تفتیشی ٹیم کو کسی سوال کے جواب میں مطمئن نہیں کر پائی، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سول جج کی اہلیہ کو دوبارہ جے آئی ٹی کے سامنے طلب کیا جائے گا۔