(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ نے بغاوت کی دفعہ 124 اے تعزیرات پاکستان کو کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق کی درخواست پر 48 صفحات کا فیصلہ جاری کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ دفعہ 124 اے بنیادی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے اسے مکمل ختم کیا جاتا ہے، اگر دفعہ 124 اے رہا تو یہ آزاد پریس کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا رہے گا، دفعہ 124 اے غیر آئینی اور آرٹیکل 19 اور 19 اے میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہم جمہوری آئین نطام کے تحت رہتے ہیں جس میں بنیادی حقوق ہیں، دفعہ 124 اے ہمارے آئین کے تحت برقرار نہیں رہ سکتا، وقت آگیا ہے کہ ہم نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ہتک عزت کے قانون کو مضبوط کریں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ دفعہ 124 اے سیاسی تقاریر کو محدود کرتا ہے جسے آزاد آئینی جمہوریت میں آزادی اظہار کی بنیادی اقدار کے طور پر نہیں مانا جا سکتا، دفعہ 124 اے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف تنقید روکتی ہے جو غلط ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے دیتا ہے، اگر دفعہ 124 اے کو رہنے دیا گیا تو میڈیا بھی اس کا شکار ہو جائے گا، اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ غداری کا جرم پریس اور اس کے ایڈیٹرز کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، یہ آزاد پریس کے حقوق کے خلاف ہے جس کا کام لوگوں کو معلومات دینا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ آئینی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں آزاد پریس اہم عنصر ہے، حقیقی آئینی جمہوریت میں میڈیا کا کام لوگوں تک معلومات پہنچانا ہے، سیاسی مخالفین میں کوئی محبت نہیں ہوتی اسلیے وہ جو بھی کہیں گے وہ 124 اے میں آجائے گا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ہم نے سیاسی میدان میں کیسز کے دوران گہری دشمنی بھی دیکھی ہے، سیاستدانوں کی جلسوں میں تقاریر میں صوبائی اور وفاقی عہدوں پر فائز مخالفین کے لیے نفرت دیکھی جا سکتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ دوسرے سیاسی گروپ سے تعلق رکھنے والا یہ جرم کر رہا ہوتا ہے۔