(آخری حصہ)
میاں محمد نواز شریف کی لندن میں بیٹھنے کی سیاست نے کسی حد تک عمران خان حکومت کو سکون دیا لیکن یہاں ایک پیج والے بنیادی غلطی کرگئے، نواز شریف کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کیلئے اُن کی دختر مریم نواز شریف کو بطور گارنٹی پاکستان میں ہی روک لیا گیا۔ ایسے کیسیز بنائے گئے جن میں نہ تو جان تھی نہ ثبوت لیکن اس کے باوجود مریم نواز کو کبھی جیل میں بھیجا جاتا اور کبھی ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈال دیا جاتا۔
اس سب کا مقصد ایک تھا کہ اس سارے دباؤ کے نتیجے میں ایک جانب نواز شریف عمران خان حکومت کو پریشان نہ کریں اور دوسری جانب اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دیے جانے پر واویلا نہ کریں۔
ایک پیج پر لکھے گئے اس پلان میں ایک جانب دیکھا جائے تو یہ بڑی کامیاب حکمت عملی رہی، نواز شریف نے اپنا منہ بند رکھا اور اپنی جماعت کی اپوزیشن جس کی سربراہی نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف کر رہے تھے کے ذریعے حکومت کے دوسری مرتبہ کی ایکسٹینشن کیلئے گرین چٹ دے دی گئی۔
اس ساری صورتحال میں مریم نواز تمام فیصلوں سے لاتعلق رہی،ں وہ اپنی مظلومیت کا رونا کبھی ہوٹل میں پڑے چھاپے اور کبھی اپنی بیماری اور سرجری کو لیکر روتی رہیں۔ اس دور ابتلاء میں شہباز شریف دو طرفہ محاذوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے، ایک جانب پارٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم کا غصہ تھا جسے وہ بھڑکنے نہیں دینا چاہتے تھے تو دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کا پُل بننے کا موقع جسے وہ گنوانا نہیں چاہتے تھے۔
شہباز شریف اقتدار میں آنا چاہتے تھے مسلم لیگ (ن) کے اندر سے اُن کی حمایت اور مخالفت میں لابیز کام کر رہی تھیں، ایک گروپ جو دوبارہ اقتدار کے جھولے پر جھولنا چاہتے تھے اور دوسری جانب نواز شریف کی بیٹی زخم کھائی شیرنی کی طرح ون پیج کو للکار رہی تھی، ویسے ہی جیسے شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور مخالف سیاسی جماعت کو للکارہ تھا۔
مریم نواز نے جب اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو اُس وقت کے سیاسی پنڈت صرف اس مفروضے پر اپنے تبصرے باندھ رہے تھے کہ مریم نواز ملک سے باہر اپنے والد کے پاس جانے کیلئے ’جل بن مچھلی‘ کی طرح تڑپ رہی ہیں اور جیسے ہی اجازت ملی یہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ملک سے باہر چلی جائیں گی لیکن ایسا نہ ہوا، مریم نواز فیصلہ کر چکی تھیں کہ وہ اپنے والد کے خلاف اُن کے خیال میں ہونے والی زیادتیوں کا انتقام لیں گی۔
سیاسی تربیت گھر میں ہی موجود تھی لیکن بڑا مسئلہ تھا کہ بدلے کے اس نظریے کی مخالفت بھی گھر سے ہو رہی تھی، اُن کے چچا کا مؤقف تھا کہ ہمیں سب سے پہلے عمران خان حکومت کا خاتمہ کرنا چاہیئے جس کے بعد ایک پیج پر موجود باقی کرداروں سے نمٹا جائے، اس ساری کشمکش میں مریم نے پارٹی کا سوشل میڈیا ونگ پوری طرح اپنے قابو میں کیا اور سیاسی جدو جہد کا آغاز ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے کیا۔ اس سارے کام میں اُن کے والد میاں محمد نواز شریف کی ساری سپورٹ اُنہیں حاصل تھی لیکن وہ اب صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے چند ایک ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے خود کو عملی سیاست میں لانچ کیا اور چھوٹے ورکرز کنوینشنز اور سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بہانے خبروں کی زینت بننے لگیں۔
عمران خان کے رویے اور ایک جیسی ’سائیکو سٹائل‘ تقریروں سے تنگ میڈیا اور سیاسی کلچر کو نزدیک سے دیکھنے اور لطف اندوز ہونے والوں کیلئے مریم تازہ ہوا کا جھونکا اور ایک مختلف بیانیہ ثابت ہوئیں اور یوں مریم نواز نے وہ منازل تیزی سے طے کرنا شروع کردیں جو بہت سے سیاستدانوں کو طے کرتے سالوں لگتے ہیں۔
مریم کی پزیرائی کو دیکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کو بھی سیاست میں اپنی وارث نظر آنے لگی کیونکہ اُن کے دونوں بیٹے سیاست سے کوسوں دور خوشگوار زندگی بسر کرنے کو پاکستان میں رہنے سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، پاکستان میں پہلی مرتبہ آئینی طریقے سے عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو مریم کے ’چاچو‘ شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے نئی بننے والی حکومت کو بیرونی سازش قرار دیکر جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک ماہ میں 26 جلسے کر دیے، یہ صورتحال حکومتی ایوانوں کیلئے پریشان کُن تھی اس لیے چارمنگ عمران خان کے مقابلے میں چارمنگ مریم نواز کو لانچ کیا گیا، ایک جانب حکومت ملک میں مہنگائی کا طوفان لا رہی تھی تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ نہ ہونے والی ڈیل مزید پریشانیاں بڑھا رہی تھی۔
تاثر یہی ابھر رہا تھا کہ اب اگر انتخابات ہوئے تو عمران خان بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوں گے، مریم نواز کو مسلم لیگ کے دور اقتدار میں ملک سے باہر جانے کا موقع ملا اور یوں باپ بیٹی کے مابین طویل سیاسی صورتحال پر نشستیں ہوئیں جس میں ایک اہم فیصلہ کیا گیا کہ مریم نواز واپس پاکستان جائیں گی اور پارٹی کو ایک بار پھر متحرک کریں گی انہیں سابق وزیر اعظم شاہد حاقان عباسی کی جگہ جماعت کا نیا چیف آرگنائزر بنایا گیا اور مریم نے پنجاب کی حد تک ہنگامی دوروں اور جلسوں سے عمران خان کی دو تہائی مقبولیت کے تاثر کو کسی حد تک ضرب لگائی اور آج یہی مریم نواز شریف مسلم لیگ کا چہرہ بن چکی ہیں۔
تمام تر بدانتطامیوں اور مہنگائی سے ستائے عوام کے باوجود اُن کی فیس ویلیو میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، وہ اپنے تمام کارڈز مناسب انداز اور بروقت استعمال کر رہی ہیں، وہ آج بھی ایک پیج والے کرداروں، عمران خان، ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو اپنا دشمن اول سمجھ کر چل رہی ہیں۔
لندن میں بیٹھے میاں محمد نواز شریف اپنے قریبی حلقوں میں اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اب پاکستان کی سربراہی سے بہتر سمجھتے ہیں کہ اپنی پارٹی کی سربراہی کریں اور سیاسی طور پر کچھ آرام کریں کہ اب اُن کا بیشتر سیاسی کام مریم نواز نے سنبھال لیا ہے۔
یہ عندیہ ہے کہ اگر انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کامیابی ملتی ہے تو وزیر اعظم مریم نواز کا پہلا نعرہ میاں نواز شریف خود لگائیں گے، میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز اس نعرے کا جواب کیا دیتے ہیں اس سے قطعہ نظر مریم نواز اب خود کو وزیر اعظم کی نشست پر دیکھ رہی ہیں۔