آج کیس ختم نہ ہونے پر معذرت خواہ ہوں: چیف جسٹس

6 Apr, 2022 | 03:42 PM

Muhammad Zeeshan

امانت گشکوری:چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم اپنے ریگولر کیس متاثر نہیں کرنا چاہتے۔کل ہم کیس کو صبح جلدی سنیں گے۔آج کیس ختم نہ ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ سپریم کورٹ کے ججز نے بابر اعوان کے دلائل پر ریمارکس دئیے کہ  آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔جب تحریک ایوان میں پیش کر دی جائے تو پھر فیصلہ کیے بغیر خارج نہیں کی جاسکتی۔ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی۔یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟جبکہ  وکیل صدر مملکت علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا  آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہمارا آئین جمہوریت کی بنیاد پر بنا ہے۔‏صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔اس معاملے کاحل نئے الیکشن ہی ہیں۔

مشترکہ اپوزیشن کی وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف جمع کروائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے بغیر ووٹنگ کے ہی مسترد کر دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔گزشتہ سماعت میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے دلائل مکمل ہو گئے تھے۔

سماعت کے آغاز پر ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے ایک منٹ کے لیے سنا جائے۔اجازت ملنے پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آج انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے۔ 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کئے جا رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے۔آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔کوشش ہے کہ مقدمہ کو نمٹایا جائے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی۔

 تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں۔ ایم کیو ایم ، تحریک لبیک پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی عدالت کے سامنے فریق نہیں۔راہ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے لیکن وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں۔  ازخود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی ۔ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ازخود نوٹس لیا۔

  وکیل بابر اعوان  نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ غدار ان کو نہیں،آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے۔آئین ایسی دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔

بابر اعوان نے کہا آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے، چیف جسٹس پاکستان ازخودنوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے۔عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا۔عدالت کو کہا گیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی اور غیرآئینی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آرٹیکل 5 کے ذریعے کسی کو غدار کہا گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 95 اور 69 کی تشریح کی استدعا کی۔آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا۔

وکیل  بابر اعوان  نے مزید کہا کہ ان کا دعوی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت جو مرکز، پنجاب، آزاد جموں کشمیر اور جی بی میں اکثریتی پارٹی ہے۔ن لیگ کے صدر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ پٹیشنر کہتے ہیں کہ عدالت ان کے حق میں شارٹ آرڈر بھی جاری کر دے۔ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے۔ اپوزیشن چاہتی ہے عدالت انکے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے۔ آئین پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر بنا پاکستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔

وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بیرونی سازش پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔وہ  اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں۔ کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا۔ 

بابراعوان نے سوال اٹھایا کہ کیا سندھ ہائوس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ اراکین اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔ ایک سیاسی جماعت جس کی مرکز،صوبے،کشمیر گلگت میں حکومت ہیں یہ کہتے ہیں اسکو نظر انداز کردیں۔درخواست گزاروں کا دعوی ہے وہ جمہوریت کو بچانے آئے ہیں ۔میرا یقین ہے اس مقدمہ میں کوئی نقطہ نظر انداز نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے سوالات اٹھائے کہ کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے سے ہٹ کر ممبران سے مشاورت کے بغیر رولنگ دے ؟ کیا سپیکر آئینی طریقہ کار سے ہٹ کے فیصلہ دے سکتا ہے؟ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس ایسا میٹیریل تھا جو انھوں نے ایسی رولنگ دی؟ سپیکر کی رولنگ کا دفاع کریں مگر آئین کے مطابق،ہمیں راستے نہ بتائیں ہم راستے ڈھونڈ لیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ نینشل سیکورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں؟ ڈپٹی اسپیکر کی  رولنگ نے نتیجہ اخذ کیا ہے۔  ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا؟ عدالت کے سامنے حقائق کی بات کریں۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا ک ہاب تک کے دلائل سے یہ لگ رہا ہے کہ سپیکر نے جو کیا اس کا ایک بیک گراؤنڈ ہے۔ آئینی شقیں تحریک عدم اعتماد پر بہت واضح ہے۔  پارلیمنٹ اجلاس کے منٹس کوئی دکھائے گا تو بات بنے گی۔  سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت حقائق اور ثبوت پر چلتی ہے۔ موجودہ کیس میں الزامات لگائے گئے ہیں۔ آئینی بنیاد پر جانا چاہتے ہیں۔ سپیکر نے کس بنیاد پر ایکشن لیا ؟ کیا سپیکر یہ ایکشن لے سکتا تھا؟

چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ  کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اتنی کہانی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بابر اعوان نے کہا راستہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیسے سب ہوا،جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں۔ کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔ یہ بھی بتائیں کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ سے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیںْ۔ سپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر۔ 

وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ 7 مارچ کو خفیہ پیغام (سائفر) پاکستان آیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال پوچھا کہ سائفر کو ڈی سائفر کا مطلب ہے کہ ایک سربمہر چیز آئی اور اس کو ڈی کوڈ کیا گیا؟

بابر اعوان نے کہا کیا آپ ان کیمرا مجھے سن سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا  جب کابینہ کو بریفنگ دی گئی تو کابینہ نے کیا کہا ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم فارن پالیسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔

وکیل بابر اعوان نے کہا سیکریٹ ایکٹ کے تحت یہ باتیں کرنا نہیں چاہتا۔خفیہ پیغام پر بریفنگ دی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا خفیہ پیغام پر کابینہ کو بریفننگ دی یا دفتر خارجہ میں اجلاس کو؟بابر اعوان نے جواب دیا کابینہ اجلاس میں خفیہ پیغام پر بریفننگ دی گئی۔

وکیل بابر اعوان نے لیٹر گیٹ پر ان کیمرہ سماعت کی استدعا بھی کر دی۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کیا یہ معاملہ ان کیمرہ ڈسکس ہو سکتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ سے صرف واقعات کا تسلسل جاننا چاہ رہے ہیں۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں۔ خارجہ پالیسی پر کسی سیاسی جماعت کے وکیل کو دلائل نہیں دینے چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے۔ اگر ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کب ہوئی؟ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے۔عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے۔ہم متنازعہ مواد پر نہیں جانا چاہتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔

بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میٹنگ ہوتی ہے اور اس کا سائفر سات مارچ کو پاکستان  میں آتا ہے ۔ میٹنگ میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن، ڈیفنس اتاشی سمیت تین ڈپلومیٹس شامل تھے۔ڈی سائفر کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس میں چار چیزیں ہیں۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا وہ معلومات کوڈز میں آئی ہیں یا سربمہر لفافے میں؟ آپ نے ڈی سائفر کا لفظ استعمال کیا۔ جس پر بابر اعوان نے کہا میں اس کو یوں کر لیتا ہوں کہ ہمارا فارن آفس اس پر نظر ڈالتا ہے۔ ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں فارن سیکرٹری دستیاب نہیں ہوتے۔ خط میں بس یہ کہا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو ملک کے ساتھ یہ یہ یہ ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ ایک سیاسی جماعت کے وکیل ہیں سپیکر کے وکیل کو رولنگ پر بات کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا قومی سلامتی اجلاس پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہوا تھا؟ جس پر بابر اعوان نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس نعیم بخاری عدالت کے سامنے رکھیں گے۔

بابر اعوان نے مزید کہا کہ میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں۔ فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے۔تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھر ڈیش ڈیش ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پھر سب ٹھیک ہے۔ 

بابر اعوان  نے کہا کہ آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد آ جاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا کہ اس کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔

بابر اعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کر دی۔ بابرا عوان کا کہنا تھا کہ ترجمان پاک فوج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔

 جسٹس اعجاز الاحسن  نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفننگ پر کیا فیصلہ کیا؟ بابر اعوان نے کہا مراسلے میں کہا گیا تھا کہ دوسرا ملک ہمارے وزیراعظم سے خوش نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر مداخلت کی اور کہا مناسب ہوگا کہ خارجہ پالیسی پر بات کسی سیاسی جماعت کا وکیل نہ کرے۔جتنا رولنگ میں لکھا ہوا ہے اتنا ہی پڑھا جائے تو مناسب ہوگا۔

بابر اعوان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مراسلے میں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا نتائج ہوں گے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دئیے کہ یہ باتیں سپیکر کے وکیل کو کرنے دیں۔ کابینہ نے کیا فیصلہ کیا یہ بتائیں۔کوئی شبہ نہیں ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہونا چاہیے۔جن پر الزام لگایا گیا ان کیخلاف کیا ایکشن لیا گیا۔

بابر اعوان نے کہا حکومت نے ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔تحریک انصاف نے اپنے ارکان کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ پاکستان سب سے پہلے ہے۔وزیر اعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔ میں بھی احتیاط برت رہا ہو۔

جسٹس جمال خان  نے ریمارکس دئیے کہ جنھوں نے عدم اعتماد تحریک پیش کی قومی سلامتی کمیٹی میں ان کے خلاف کارروائی کا کیا کہا گیا ؟۔ جس پر بابر اعوان نے کہا پاکستان کی بقا اور وفاداری کے تحت کوئی ایسی ویسی بات نہیں کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین پاکستان کے تحت پر شہری کی وطن سے وفاداری لازم ہے۔ اگر کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں تو ان کے خلاف کیا کیا؟ 

بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے کسی کو غدار نہیں کہا نہ ایکشن لیا۔ محتاط ہو کر اس معاملے پر دلائل دے رہا ہوں۔تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھجوایا ہے۔

چیف جسٹس  نے کہا آپ ہمیں دوسری طرف لیکر جارہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔،چیف جسٹس  نے کہا آپ نے کوئی اور باتیں کرنی ہیں تو دوسرے وکیل کو موقع دیں۔ہمارے لیے مسئلہ بن رہا ہے ہم نے سماعت مکمل کرنی ہے۔ آپ ہمیں بتائیں کہ سپیکر نے کوئی میٹنگ کی تھی اس میٹنگ کے منٹس پیش کریں۔بظاہر ہمارے سامنے یہ کیس  الزمات اور مفروضوں پر مبنی ہے۔ آیا وہ الزمات اور مفروضے قابل دفاع ہیں یا نہیں۔ ہم متضاد الزمات پر نہیں جاتے۔

چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے ہمیں پارلیمانی جمہوریت کا بتانا تھا۔ ہم نے اس معاملے کو ختم کرنا ہے۔ہم جلد سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتیں نا کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 69 اور 95  پر آپ کا کیا موقف ہے۔ آپ یہ بتا دیں کہ ڈپٹی سپیکر کے کیا اختیارات ہیں۔ آپ غیر ضروری باتیں کر رہے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا میمو گیٹ آج تک زیر التوا ہے۔ ایک شخص ملک سے بھاگا ہوا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں سب معلوم ہے آپ اپنے کیس پر دلائل دیں۔

 بابر اعوان  نے کہا عدالت نے تین اپریل کے حکمنامہ میں امن و امان کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ دوسری اہم چیز عدالتی حکم میں غیرآئینی اقدامات سے روکنا تھی۔

 چیف جسٹس  نے کہا عدالتی حکم میں زیادہ اہم چیز ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت تھی۔ ہم سپیکر کی رولنگ اور آرٹیکل 69 پر بات کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دئیے آپ واقعاتی شواہد دے رہے ہیں کہ یہ ہوا تو یہ ہوگا۔ ان تمام واقعات کو انفرادی شخصیات سے کیسے لنک کرینگے۔

 چیف جسٹس  نے مزید کہا کہ ایک بج گیا ہے کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دو دن ایک سائڈ کے وکلاء نے لے لئے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آآپ کے کلائنٹ وزیراعظم کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے۔

بابر اعوان نے کہا  وزیراعظم کو جو کچھ معلوم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا انگلینڈ،آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ کی بات نہ کریں ہم نے اپنے ملک کا آئین دیکھنا ہے۔ آپ ہمیں متعلقہ حقائق بتائیں باقی آپ کے تحریری دلائل پڑھ لیں گے۔

بابر اعوان  نے کہا قومی مفاد سب سے بے چارہ لفظ ہے جو پاکستان میں بہت استعمال ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ قومی مفاد کا لفظ سپیکر کے حلف میں کہاں استعمال ہوا ہے؟ بابر اعوان صاحب آگے چلیں نا ، یہ چیزیں ایک لائن میں بتا دیں۔ آپ اپنا پوائنٹ پڑھ لیں پھر ہم اوکے کہہ دینگے۔

 بابر اعوان  نے مزید کہا کہ برطانوی سپریم کورٹ نے کہا کوئی باہر سے آ کر پارلیمان اجلاس ملتوی نہیں کر سکتا۔ برطانوی عدالت نے کہا پارلیمان اپنے ہاؤس کی خود ماسٹر ہوتی ہے۔ کوئی بھی قانون شریعت کیخلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ رولز کے مطابق سپیکر ووٹنگ کے علاوہ بھی تحریک مسترد کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا جب تحریک ایوان میں پیش کر دی جائے تو پھر فیصلہ کیے بغیر خارج نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دئیے کہ  آپ کے مطابق رولز بذات خود کہتے ہیں کہ تحریک کو ووٹنگ کے بغیر مسترد کیا جاسکتا ہے۔ اب آپ نے کام کی اور بہترین بات کی ہے۔بابر اعوان  نے کہا میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا رکیں مجھے یہ پوائنٹ لکھنے دیں۔

بابر اعوان  نے دلائل دئیے کہ  فیصلہ اس سائیڈ ہونا ہے یا اس سائیڈ ، ایک سائیڈ جیت جائے گی۔چیف جسٹس  نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے گا۔

بابر اعوا ن نے جواب دیا کہ ڈیڈ لاک روکنے کیلئے ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔ کوئی ریاستی ادارہ نہ آجائے اس لیے ازخود نوٹس لیا گیا۔پارلیمانی کمیٹی کیلئے ہم نے اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور پرویز خٹک کے نام دے دئیے ہیں۔  ہم نے قائم مقام وزیراعظم کیلئے بھی  نام دے دیا ہے۔ اپوزیشن  تاخیر کر رہی ہے ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ڈیڈ لاک ہے۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل  نے ریمارکس دئیے کہ اسی لئے کہہ رہے ہیں کیس جلد مکمل کریں تاکہ تاخیر نہ ہو۔ عدالت عوام کیلئے فیصلہ کرے گی اور سب اس پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا اب راستہ نئے انتخابات ہی ہے اللہ اس ملک پر راضی رہے۔ بعدازاں بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔

پھر صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 66 سے 69 پارلیمنٹ کی کراروائی کو تحفظ دیتے ہیں۔  آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستیں قابل سماعت نہیں۔ اس کیس میں بدقسمتی سے درخواست گزاروں نے سپیکر رولنگ کو چیلنج کیا۔ پارلیمنٹ کے استثنی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ سپیکر کو کیس میں فریق بنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس  نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین کی خلاف ورزی ہو تو کیا پھر بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر علی ظفر نے کہا آئین کی خلاف ورزی سے متعلق الگ طریقہ کار ہے۔ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے۔ آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہمارا آئین جمہوریت کی بنیاد پر بنا ہے۔‏صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔اس معاملے کاحل نئے الیکشن ہی ہیں۔

وکیل علی ظفر  نے مزید کہا کہ  ‏جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریٹارمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی۔ باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔‏اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی۔ عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی۔ عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہوگا۔ عدالت نے مداخلت کی تو پارلیمنٹ کا ہر معاملہ سپریم کورٹ آجائے گا۔

وکیل علی ظفر  نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی رولنگ کو ٹچ نہیں کر سکتی۔ سپیکر کی رولنگ واپس نہیں ہوسکتی۔ پارلیمنٹ کے مسائل اس کے اندرونی معاملات ہیں۔ ایوان سپیکر سے مطمئن نہ ہو تو عدم اعتماد کر سکتا ہے۔

وکیل علی ظفر  نے کہا سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔  جسٹس جمال خان مندوخیل  نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکر اگر رولنگ دے دے تو کیا ایوان واپس کر سکتا ہے؟اگر اسپیکر ایوان کی بات ماننے سے انکار کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا  ہاوس اسپیکر کو اوور رول کر سکتا ہے۔  

چیف جسٹس پاکستان  نے سوال اٹھایا کہ کیا اسپیکر کا اقدام تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کی میعاد ہٹانے کیلئے تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن  نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم رولنگ کو نہیں چھیڑ سکتے لیکن جو وزیراعظم نے صدر کو تجویز بھیجی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر  نے کہا اگر تحریک عدم اعتماد کو 18 فیصد افراد کے کہنے پر پیش کر دیا جائے تو بھی عدالت اس کو نہیں دیکھ سکتی۔ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے تب بھی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی؟ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کسی بھی پارلیمنٹ کے معاملے کو نہیں دیکھ سکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کئی دنوں سے آرٹیکل 5 کا تذکرہ سن رہے ہیں۔ آرٹیکل 5 کی شق دو میں واضح ہے کہ ہر شہری آئین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ کیا سپیکر اس ملک کا شہری نہیں؟ اسپیکر نے آئین کے آرٹیکل 95 پر عمل نہ کر کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں کی؟جس پر وکیل علی ظفر نے کہا روزانہ آئین کی خلاف ورزیوں کے کئی واقعات ہوتے ہیں جس پر عدالت میں رٹ دائر ہوتی ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ‏مخدوم علی خان کے مطابق آرٹیکل 69 تب کراس ہوتا ہے جب آئین توڑا جائے اس معاملے میں آٹیکل 95 کو توڑا گیا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 پر عمل نہیں ہوا۔ چیف جسٹس  نے ریمارکس د ئیے کہ درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ درخواست گزار کہتے ہیں آئین کی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔

جسٹس جمال خان  اس موقع پر سوال اٹھایا کہ  اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس  نے ریمارکس دئیے کہ آپکے مطابق اس کیس میں فورم اسپیکر کو ہٹانا تھا۔وکیل علی ظفر نے  کہا سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے گی تو پارلیمان کا ہر عمل عدالت میں آجائے گا ۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمان اگر ایسا فیصلہ دے جس کے اثرات باہر ہوں تو پھر آپ کیا کہتے ہیں ؟علی ظفر  نے کہا عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ 

 جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہہ رہے ہیں اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال خان نے کہا آئین کے تحت ہر شہری اسکا پابند ہے۔ کیا اسپیکر آئین کے پابند نہیں۔ 

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا رستہ کھول دیا۔ آج کیس ختم نہ ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ کل ہم کیس کو جلدی سنیں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعرات تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ کل بروز جمعرات کو لارجر بنچ صبح ساڑھے 9 بجے کیس کی سماعت کرے گا۔

مزیدخبریں