ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

  خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکار اور افغان شہری اسلام آباد میں احتجاج کرتےہوئے گرفتار

  خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکار اور افغان شہری اسلام آباد میں احتجاج کرتےہوئے گرفتار
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  اسلام آباد میں دھاوا بولنے کے لئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ  اپنے ساتھ خیبر پختونخوا کی پولیس اور افغان شہریوں کو بھی لائے تھے، اسلام آباد مین پولیس پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں، گرفتار ہونے والوں میں کے پی کے پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔  وزیر اعلیٰ کے پی کے سمیت قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔

یہ باتیں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے آج شب اسلام آباد میں نیوز کانفرنس صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئیؤے بتائیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا کہ پاکستان مین پہلی بار پولیس کو کسی مظاہرے مین استعمال کیا گیا، انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ جن لوگوں کو اسلام اباد پر دھاوا بولنے کے لئے لائے تھے ان مین سادہ لباس میں خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکار شامل تھے ۔ ان سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں میں سے 11 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

محسن نقوی نے بتایا کہ  کہ  پی ٹی آئی مظاہرین کی کوشش تھی کہ 17 اکتوبر تک ڈی چوک میں احتجاج کریں اور ایس سی او کانفرنس کو خراب کریں ۔ 

 وزیر داخلہ  محسن نقوی نے  ڈی چوک کو مکمل   کلیئر کروانے کے بعد  وہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ  باقاعدہ تربیت یافتہ جتھوں نے اسلام آباد پر دھاوا بولا ہے جوشرپسندی کرنا چاہتے تھے، یہ تشدد کریں ، جتھوں کے ساتھ حملہ کریں اور ہم ان سے بات کریں؟ وزارت داخلہ نے اعلیٰ سطح تحقیقات شروع کردی ہیں۔  وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔  وزیراعلیٰ کے پی سمیت کوئی بھی ملوث ہوا کارروائی کریں گے۔  آج اسلام آباد پر دھاوا بولا گیا، وزیراعلیٰ کے پی لیڈ کر رہے تھے، ان کی کوشش تھی 17 اکتوبرتک ڈی چوک پر رہیں، مظاہرین کا مقصد ڈی چوک پر دھرنا دے کرایس سی او کانفرنس خراب کرنا تھا،

محسن نقوی نے بتایا کہ اسلام آباد میں دھاوا بولنے والے564 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا سے لائے گئے افراد مین افغان شہری بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دھاوا بولنے والے چھپ کر گلیوں کے ساتے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے۔ 

 ایک صحافی نے سوال کیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس وقت کہاں ہیں ؟ وزیر داخلہ محسن نقوی نے جوابی سوال کیا کہ آپ بتا دیں۔

 ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ جب تحریک عدم اعتماد سابق حکومت کے دور میں لائی جا رہی تھی اس وقت سندھ ہاؤس پر جب پولیس نے چڑھائی کی تو بلاول بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی ہے آج جب پولیس نے کے پی ہاؤس پر چڑھائی کی اور گرفتاریاں کی تو کیا ایسے نہیں ہو سکتا تھا کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے ؟جس پر محسن نقوی نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص 2 دن توڑ پھوڑ کر کے وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولے اور پھر ہم سے توقع رکھے کہ ہم اس کیساتھ نرمی سے پیش آئیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔  ہاں اگر یہ پہلے مذاکرات کرتے اور کہتے کہ ہم "ان مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں",  تو میں خود وزیر اعظم کے پاس جاتا اور انہیں کنوینس کرتا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں ۔