آج دنیا بھر میں یوم تکریم اساتذہ منایا جارہا ہے ۔استاذ ایسی شخصیت ہے جوپتھر کو تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے ،جو زمین سےاٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ استاذ کو خراج تحسین پیش کرنے کے طریقے دنیا بھر میں مقبول ہیں ۔ دنیا اپنے اساتذہ کو وی وی آئی پی پروٹوکول دیتی ہے ۔استاذ عدالت میں چلا جائے تو عدالت استاذ کے احترام میں کھڑی ہوجاتی اور معلم سے معافی مانگتی ہے ۔معلم کا لفظ سنتے ہی ہر شخص اسی طرح پیش آتا ہے جیسے کوئی بادشاہ ہو۔ سرکاری و نجی دفاتر میں دنیا بھر میں معلم کا کام سب سے پہلے کیا جاتا ہے ۔مگر افسوس ہم عملی طور پر تو معلم کواس کا مقام دینے میں ناکام ہیں بل کہ ہم معلم کےمقام کو جانتے تک نہیں ہیں ۔کل ڈی سی لاہور نے اساتذہ کو حاضری بہتر بنانے کا حکم دیا اوراس کے بعد جو الفاظ یا احکامات تھے وہ حیران کردینے والے تھے ۔ اساتذہ تدریس کو بہتر بنائیں اور ڈینگی کی آگاہی مہم کو تیز کریں ۔یہ جملے اساتذہ کی تکریم نہیں بلکہ تذلیل ہے ۔ ڈینگی کی آگاہی مہم اساتذہ کا کام نہیں ہے ۔ افسوس ہم یہی نہیں جانتے کہ اساتذہ سے کام کیا لینا ہے ۔ اساتذہ اگر غیر تدریسی کام کریں گے تو تدریس کو بہتر کیسے بنائیں گے ۔
شعبہ تدریس میں اساتذہ پر شاید پڑھانے کی پابندی ہے ۔ اساتذہ کا احترام منقود اسی لیے ہوا کہ ہم نے اساتذہ کو غیر تدریسی سرگرمیوں میں مشغول کرکے ان کو تدریس کے نام پر ذلیل کیا ہے ۔ مثلا چند ایک ایسے مسائل پیش کرتا ہوں جن کو پڑھ کر انسان کا دل کرتاہے اپنا سر پیٹ لے ۔
اساتذہ کو تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ڈینگی مہم میں بھی شامل کیا جاتا ہے، جس سے تعلیمی عمل میں خلل آتا ہے۔کیونکہ ڈینگی مہم کے نام پر اساتذہ کو روزانہ کی بنیاد پر کم از کم تیس تصاویر بنانے اور پھر اپلوڈ کرکے سسٹم میں بھیجنے پر لگا دیا جاتا ہے ۔مردم شماری کے دوران اساتذہ کو بطور شمار کنندہ یا معاون مقرر کرکے ان کو تعلیمی اداروں سے دور کرکے شہریوں کے گھروں میں بھیجا جاتا ہے جو ایک معلم کے معیار اور مقام کے منافی ہے ۔ایسے میں استاد شہریوں کی گنتی کرے یا کلاس میں بیٹھے بچوں کو پڑھائے۔ اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں، جیسے ووٹر رجسٹریشن یا پولنگ ڈیوٹی جیسےکام بھی لیے جاتےہیں جن کا اساتذہ سے تعلق نہیں ۔دنیا بھر میں پولیو، ڈینگی ، مردم شماری ،الیکشن ڈیوٹی ، ہنگامی حالات حتی کہ پیپرز میں نگرانی جیسے کام کے لیےالگ سے عملہ رکھا جاتا ہے ۔ معلم کو ایسی ڈیوٹیاں دے کر تذلیل نہیں کی جاتی ۔
اکثر و بیشتر اساتذہ تو دور دراز علاقوں میں تعینات ہیں ، جہاں تک ان کی رسائی ہونا مشکل ہوتی ہےیا بنیادی سہولیات کی کمی ہوتی ہے، جس سے ان کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔مثلا کئی اساتذہ ایسے ہیں جو روزانہ سفر کرکے دوسرے شہر جاتے ہیں اور پھر واپس اپنے شہر آتے ہیں ۔ جن میں اکثریت خواتین کی ہے ۔ دنیا بھر میں اور پاکستان کے قانون کے مطابق خواتین کو ان کے اپنے شہر میں پوسٹنگ دی جانی چاہیے ۔مگر شعبہ تعلیم خواتین اساتذہ پر یہ مہربانی نہیں کرتا بلکہ خواتین اساتذہ روزانہ کی بنیاد پر دوسرے شہر جاتی ہیں ،اور پھر واپس اپنے گھر پہنچتی ہیں ۔ ایسے میں ان کے قیمتی وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے ۔ان کی صحت بھی خراب ہوتی ہے اور ان کو تحقیق و مطالعہ کے لیے بھی وقت میسر نہیں ہوتا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے ۔بعض اوقات تعلیمی افسران کا رویہ غیر دوستانہ یا غیر ضروری دباؤ پیدا کرنے والا ہوتا ہے، جس سے اساتذہ کی کارکردگی اور حوصلہ متاثر ہوتا ہے۔تعلیمی افسران جب کسی سکول ، کالج یا یونیورسٹی کا وزٹ کرتے ہیں تو وہ استاد کو اس کے شاگردوں کے سامنے بھی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں ۔ اس وقت ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہی سب کچھ ہیں ۔ حالانکہ ایسے افسران کی تربیت کی جانی ضروری ہے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ کمرہ جماعت میں یا احاطہ تعلیمی ادارہ میں اساتذہ سے کس طرح بات کرنی چاہیے ۔اسکولوں اور کالجز میں اکثر ضروری تدریسی وسائل، جیسے کتب، کمپیوٹرز اور دیگر سہولیات کی کمی ہوتی ہے۔کئی تعلیمی اداروں میں تو لائبریری کےنام پر تحقیقی کتب کا فقدان ہی نظر آتا ہے ۔
دنیا بھر میں اساتذہ کی تنخواہ اور مراعات سب سے زیادہ ہوتی ہیں مگر یہاں پر آئیڈیل تنخواہ تو دور کی بات ہے و وقت پر تنخواہیں اور دیگر مراعات فراہم نہیں کی جاتیں، جس سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔اور ان کو حکومت کے سامنے احتجاج کرنا پڑتاہے ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹائزڈ کرکے اساتذہ کی مشکلات کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ پچھلے برس انہی دنوں میں اساتذہ کی تکریم اس طرح کی گئی کہ اپنے حقوق مانگنے والے قلم تھامے اساتذہ کو قیدیوں کی وین میں بند کیا گیا ۔ ان کو کئی کئی دن حوالات رکھا گیا ۔
بعض اوقات طلبہ میں تعلیم کے حوالے سے غیر سنجیدگی دیکھی جاتی ہے، جس سے اساتذہ کو تدریسی اہداف حاصل کرنے پر لگا دیا جاتا ہے ۔ دیہی علاقوں میں اینٹوں کے بھٹوں سے بچوں کو ڈھونڈ کر ان کے کارڈ بنوانے ان کو داخلے کی طرف مائل کرنے جیسے کام پر بھی اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے ۔ جبکہ ایک معلم کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے ۔ اس کو لائبریری میں بیٹھ کر تحقیق کے در کھولنے کی بجائے اینٹوں کے بھٹوں میں چھپے بچوں کو تلاش کرنے پر لگا دیا جاتا ہے یا لوگوں کے در کھول کرداخلوں کے اہداف مکمل کرنے پرلگا دیا جاتا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں آئے روز پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیاں بھی اساتذہ کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ اُنھیں بار بار نئے طریقہ کار سے مطابقت پیدا کرنی ہوتی ہے۔
اگر ہم واقعی اساتذہ کی تکریم کرتےہیں تو خدارا انہیں پڑھانے کے سوا کسی اور سرگرمی میں مشغول مت کریں ۔ اگر آپ رزلٹ مانگتےہیں تو پڑھانے تو دیں ۔ اساتذہ کا مقام دلا دیں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائےگا۔