سٹی42: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعہ کے روز ایک غیر معمولی جمعہ کا خطبہ دیا کس کو انٹرنیشنل میڈیا میں غیر معمولی خطاب کی حیثیت سے ڈسکس کیا جا رہا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای جو کئی روز سے مکمل روپوشی مین تھے، اسرائیل پر منگل کے روز ایرانی میزائلوں کے حملے کے بعد پہلی مرتبہ ایرانی پبلک کے سامنے آئے اور جمعہ کی نماز کا خطبہ بھی دیا جس میں انہوں نے نہ صرف اسرائیل پر میزائلوں کے حملے کی حمایت اور وکالت کی بلکہ انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حماس کے حملوں کی بھی حمایت کی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حماس کی زیر قیادت 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملے اور قتل عام کے واقعات کی تعریف کرتے ہوئے ان کو"منطقی اور قانونی" کہا۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے ان حملوں سے شروع ہونے والی خونریزی میں فلسطین کے چالیس ہزار سے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل، لبنان اور دیگر علاقوں مین ہونے والا جانی نقصان الگ ہے۔ ان حملوں سے جنم لینے والی جنگ ایک سال بعد مزید پھیل کر لبنان کے اندر اور ایران کے دروازے تک پہنچ چکی ہے۔
دارالحکومت تہران کی ایک مسجد میں دسیوں ہزار افراد کے سامنے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے حال ہی میں حزب اللہ رہنماؤں کو ہلاک کرنے کے بعد بھی مشرق وسطیٰ میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپ "پیچھے نہیں ہٹیں گے"۔
تقریباً پانچ سالوں میں اپنے پہلے عوامی جمعہ کے خطبے میں، خامنہ ای نے لبنان کی حزب اللہ اور فلسطینی حماس سمیت ایران سے منسلک "محور مزاحمت" کے ذریعے اسرائیل کے خلاف لڑائی پر بات کرنے کے لیے عربی میں بات کی۔
"خطے میں مزاحمت ان شہادتوں سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اور جیت جائے گی،" خامنہ ای نے امام خمینی گرینڈ موسالہ مسجد میں ہبہت بڑے مجمع سے کہا، جہاں حامیوں نے حزب اللہ اور حماس کے مقتول رہنماؤں کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔
خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو کبھی شکست نہیں دے گا۔انہوں نے گزشتہ سال کے دوران اسرائیلی افواج کے خلاف حماس اور اسلامک جہاد کے "سخت دفاع" کی تعریف کی، جس میں 7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے اور اس کے نتیجے میں حزب اللہ، یمن کے حوثی باغیوں اور عراق اور شام میں ملیشیا گروپوں کے یکجہتی کے حملوں کا حوالہ دیا۔
خامنہ ای نے دعویٰ کیا کہ تہران کے حمایت یافتہ گروپ اسرائیل کے خلاف "منطقی اور جائز" کارروائی میں مصروف تھے، اور "کسی کو ان پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے خطبے میں دعویٰ کیا کہ منگل کا میزائل بیراج، جس نے اسرائیل کی زیادہ تر آبادی کو پناہ گاہوں میں بھیجا اور مغربی کنارے میں ایک فلسطینی کو ہلاک کیا، بین الاقوامی قانون، ایرانی قانون اور اسلامی عقائد پر مبنی تھا۔
انہوں نے "افغانستان سے یمن تک اور ایران سے لے کر غزہ اور یمن تک" کی اقوام پر زور دیا کہ وہ "دشمن کے خلاف کارروائی" کے لیے تیار رہیں.
آیت اللہ خامنہ ای کی جمعہ کی نماز سے پہلے یہ خصوصی تقریر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی یادگاری تقریب سے قبل کی گئی جو 27 ستمبر کو ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر عباس نیلفروشان کے ساتھ جنوبی بیروت میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔
'کم سے کم سزا'
خامنہ ای کا خطبہ 7 اکتوبر کے حملوں کی پہلی برسی سے کچھ دن پہلے ہوا ہے اور اسی ہفتے ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 میزائل داغے جسے آیت اللہ خامہ ای نے حسن نصر اللہ، نیلفروشان اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی ہلاکتوں کا بدلہ قرار دیا۔
میزائل فائر کے بارے میں خامنہ ای نے کہا،"ہماری مسلح افواج نے جو کچھ کیا وہ غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کی کم سے کم سزا تھی،"
یہ ایران کا اسرائیل پر دوسرا براہ راست حملہ تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل ایک "بد نیتی پر مبنی حکومت" ہے جس نے "صرف امریکی حمایت کے انجیکشن سے خود کو کھڑا رکھا ہے۔"یہ "زیادہ دیر تک نہیں چلے گا،"۔
خامنہ ای نے حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کے دوران عورتوں، بچوں کے قتل اور اغوا کر کے یرغمال بنانے کے واقعات کو "منطقی اور قانونی" کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر بے مثال حملہ کرنے کے لیے "فلسطینی صحیح تھے"۔اس روز 251 افراد کو اغوا بھی کیا گیا تھا جن میں سے 97 ابھی تک قید ہیں۔
خامنہ ای نے آخری بار جنوری 2020 میں جمعہ کی نماز کی امامت کی تھی جب ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل مارے تھے، یہ میزائل اس حملے کے جواب میں جس میں پاسداران کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت ہکے بعد مارے گئے تھے۔
اپریل میں، تہران نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے میں پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے والے مہلک اسرائیلی حملے کے بدلے میں اسرائیل کے خلاف میزائل اور ڈرونز سے حملے کئے تھے تاہم ان حملوں کے بعد خامنہ ای نے پبلک میں آ کر خطاب نہیں کیا تھا۔ منگل کے روز میزائل حملوں کے بعد جمعہ کے روز وہ خطاب کرنے کیلئے تہران کی مسجد پہنچے تو وہاں ہزاروں پروکاروں کا ہجوم ان کو سننے کے لئے جمع تھا۔