ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسرائیل ایران کی آئل انڈسٹری پر بھی حملہ نہ کرے، امریکی صدر  کا  اعلانیہ مشورہ

Iran Israel conflict, Irani Oil Installations, Iran's Oil Field, city42
کیپشن:   امریکی صدر جو بائیڈن واشنگٹن میں جمعہ 4 اکتوبر 2024 کو وائٹ ہاؤس کے پریس روم میں میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ فوٹو بذریعہ گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی مخالفت کے بعد بائیڈن نے تجویز پیش کر دی  کہ اسرائیل ایران کے آئل فیلڈز کو  بھی نشانہ نہ بنائے۔ امریکہ کے  صدر جو بائیڈن نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ ایران کے حالیہ بیلسٹک میزائل حملے کا کیا جواب دے گا۔

"اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو میں تیل کے کھیتوں پر حملہ کرنے کے علاوہ دوسرے متبادل کے بارے میں سوچ رہا ہوتا،" صدر جو  بائیڈن نے  وائٹ ہاؤس کی روزانہ کی پریس بریفنگ میں اپنی ایک غیر معمولی آمد کے دوران کہا۔ اس بریفنگ میں ایک کے بعد ایک رپورٹر نے ان سے اہم سوالات پوچھے جو بیشتر انہیں اسرائیل پر تنقید کرنے کی طرف راغب کرتے دکھائی دیئے۔

اسرائیل پر ایران کے کم و بیش 181 بیلسٹک میزائلوں سے حملے کے بعد صدر  بائیڈن نے کہا  تھاکہ وہ اسرائیل کے (ممکنہ طور پر) ایرانی جوہری مقامات کو نشانہ بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔

آج جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس کی معمول کی پریس بریفنگ میں اپنی غیر معمولی موجودگی کے دوران ایک رپورٹ کے سوال پر کہ "کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو آئندہ صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے غزہ اور لبنان میں سفارتی معاہدوں کو مسترد کر رہے ہیں،" صدر جو  بائیڈن نے جواب دیا، "میری حکومت  جتنی اسرائیل کی مدد امریکہ کی کسی حکومت نے نہیں کی۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں، کوئی نہیں، اور میرے خیال میں بی بی (نیتن یاہو) کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔

بائیڈن نے مزید کہا ، "جہاں تک وہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے یا میں نہیں جانتا ، لیکن میں اس پر انحصارنہیں کر رہا ہوں۔"

بائیڈن نے اسرائیل ایران کونفلکٹ کے متعلق مزید کہا، ہ سمجھتے  ہیں کہ وہ نیتن یاہو سے اس وقت بات کریں گے جب اسرائیل یہ فیصلہ کرچکا ہو گا کہ وہ ایران کو کیا جواب دینا چاہتا ہے۔

ایک اور رپورٹر نے اپنے سوال سے یہ تجویز کیا کہ بائیڈن اسرائیل پر اثر انداز نہیں ہوتے (ہو  رہے)۔ صدر نے اس  مفروضے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں باقاعدہ بریفنگ ملتی ہے اور ان کی ٹیم اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

"یہ (اسرائیل میں) بڑی تعطیلات ہیں۔۔۔  وہ فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ اور اس طرح، ہم یہ دیکھنے کے لیے انتظار کریں گے کہ وہ کب بات کرنا چاہتے ہیں،‘‘ صدر بائیڈن نے مزید بتایا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسرائیل امریکی حکومت کے مشورے پر عمل کر رہا ہے، بائیڈن نے مئی سے غزہ کے یرغمالیوں کے معاہدے کی اب تک پھنسی ہوئی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا،  امریکی حکام نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے اس تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر رہی ہے۔

بائیڈن نے کہا،  "میں جو جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے جو  منصوبہ پیش کیا اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت حاصل کی، اور  اس تنازعہ (غزہ جنگ) کو ختم کرنے کے لئے دنیا بھر میں ہمارے اتحادیوں کی اکثریت کی حمایت اسے حاصل ہے۔"

 جنگ کے حوالے سے اسرائیل امریکہ حکومتوں کے مشترک ٹاکنگ پوائنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے  بائیڈن نے مزید کہا، "اسرائیلیوں کو  خود  پر ہونے والے شیطانی حملوں کا جواب دینے کا پورا حق ہے - نہ صرف ایرانیوں،  بلکہ حزب اللہ سے لے کر حوثیوں تک ہر ایک کے کے حملوں کا جواب دینے کا حق ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں شہری ہلاکتوں سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا،"

وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں موجود ایک رپورٹر نے  ان پر ایک بار پھر دباؤ ڈالا کہ اسرائیل کو ایران کو کیا جواب دینا چاہئے، بائیڈن نے مزید تفصیلات پیش کرنے سے انکار کردیا اور کہا، "یہ میرے اور ان کے درمیان ہے۔"

ایران پر پابندیاں زیر غور

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں، صدر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ زیر بحث ہے۔

ایک اور رپورٹر نے پوچھا کہ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں ہر طرح کی جنگ کو روکنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے جواب دیا کہ  "ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ سب سے اہم چیز جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ باقی دنیا، ہمارے اتحادی اس کوشش  میں حصہ لینے کی کوشش کریں —  جیسے کہ فرانسیسی لبنان اور دیگر جگہوں پر  کر رہا ہے — اس (جنگ)  کو ختم کرنے کے لیے، لیکن جب آپ کے پاس حزب اللہ اور حوثیوں کی طرح غیر معقول برداشت سے محروم  پراکسی ہوں تو اس کا تعین کرنا ایک مشکل چیز ہے۔