امانت گشکوری :چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اجلاس میں 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیدیا گیا ہے ۔
آئینی کمیشن کا حصہ بننے والے ان ججز میں 3 وہ ججز بھی شامل ہیں جو مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز میں شامل تھے لیکن حیران کن طور پر چیف جسٹس کی جانب سے بینچ تشکیل کی مخالفت میں ووٹ دئے جانے کا انکشاف ہوا ہے،جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس امین الدین نے شرکت کی۔
اجلاس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان، وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، نمائندہ پاکستان بار کونسل اختر حسین بھی اجلاس میں شریک ہوئے،اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ (ن) کے شیخ آفتاب احمد، پی ٹی آئی کے عمر ایوب اور شبلی فراز نے بھی شرکت کی اجلاس میں خاتون ممبر روشن خورشید بھی شریک تھی۔
ذرائع کے مطابق 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل کا فیصلہ سات پانچ کے تناسب سے ہوا ہے،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، عمر ایوب اور شبلی فراز نے بینچ کی تشکیل کی مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ جسٹس امین الدین، اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اور اختر حسین نے حق میں ووٹ دیا، فاروق ایچ نائیک، آفتاب احمد، روشن خورشید بروچہ نے بھی حق میں ووٹ دیا۔
،پی ٹی آئی ارکان ممبران عمر ایوب اور شبلی فراز نے مؤقف دیا کہ چیف جسٹس سمیت چار سینئر ججز کو آئینی بنچ میں ہونا چاہیے،حکومت نے امین الدین سمیت دیگر نام دیئے جس پر ووٹنگ ہوئی،آئینی عدالت کا سربراہ نہیں بنا لہذا کمیشن فیصلہ نہیں کر سکتا،اپوزیشن نے اپنا اصولی موقف لکھ کر کمیشن اجلاس میں رکھا۔
عمر ایوب نے لکھا ہوا موقف پڑھا جس سے شبلی فراز نے اتفاق کیا،عمر ایوب نے کہاکہ اس باڈی کا کورم ہی پورا نہیں کیونکہ آئینی بنچ کا سربراہ موجود نہیں،اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اس کمیشن کے 13 ممبرز ہیں تمام ممبرز ہوں تو اجلاس بلایا جائے،چیف جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اپوزیشن ارکان کی رائے سے اتفاق کیا، شبلی فراز نے کہا کہ ابھی ممبران 12 ہیں اگر چھ چھ ایک طرف ہو جائیں تو کیسے فیصلہ ہوگا؟