(قیصرکھوکھر)عوام سرکاری دفاتر میں غلام سے کم تر ہو کر رہ گئے ہیں اور نجانے کون سا حکمران آئے گا جو بیوروکریسی کی گردن میں لگا سریا توڑے گا اور اس نوکر شاہی کو عوام کا صحیح معنوں میں نوکر بنا کر چلائے گا تاکہ عوام کو ان سرکاری دفاتر میں تحفظ مل سکے۔ گزشتہ دنوں ارکان اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار سے شکایات کے انبار لگا دیئے ہیں کہ افسر شاہی ان کے فون نہیں سنتی ہے اور نہ ہی انہیں دفاتر میں ملتی ہے اور یہ کہ ان کے ناجائز کام تو دور کی بات ہے ان کے جائز کام بھی نہیں ہوتے ہیں جس کے لئے یہ سرکاری دفاتر کے چکر لگانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
پنجاب سمیت ملک بھر کی بیوروکریسی اس وقت حکومت کے قابو سے باہر ہو چکی ہے اور انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگر ارکان اسمبلی اتنے بے بس ہیں تو بے چارے عوام کا کون پرسان حال ہوگا۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ سمیت صوبہ بھر کے تمام ضلعی اور ڈویژنل دفاتر میں افسران اپنی مرضی سے دفتر آتے ہیں اور اپنی مرضی کی نوکری کرتے ہیں۔ وہ اگر ارکان اسمبلی کو بجا نہیں لاتے ہیں تو بے چارے پسے ہوئے عوام کا کیا حال ہوگا انہیں تو کوئی ان دفاتر میں گھسنے ہی نہیں دیتا ہے۔ ضلع اور تحصیل کے دفاتر میں افسران اجلاس کے بہانے غائب رہتے ہیں اور سارا سارا دن ان کے ماتحت عوام کو در پردہ لوٹتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر ان ماتحت ملازمین نے ایک سیل میلہ لگایا ہوتا ہے اور عوام ان کے ہاتھوں مکمل طور پر یرغمال ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمد خان نے ایک رپٹ درج کرانے کے لئے ایک تھانے کا دورہ کیا تو انہیں بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی کہ انہیں اپنا تعارف کرانا پڑا کہ وہ ڈی آئی جی پولیس ہیں جس پر ان کی رپٹ درج کی گئی ہے۔ کون سا حکمران آئے گا جو اس بیوروکریسی کی گردن کا سریا ختم کرے گا، انہیں صحیح معنوں میں عوام کے ماتحت کرے گا اور یہ افسران اپنے آپ کو عوام کے نوکر سمجھیں گے اور اپنے آپ کو ہر وقت عوام کے خادم کے طور پر پیش کریں گے اور اپنے دفاتر کے دروازے عوام کے لئے کھلے رکھیں گے۔ پنجاب کی نوکر شاہی نے وزیراعلیٰ کی اوپن ڈور پالیسی ہوا میں اڑا دی ہے اور اپنے دفاتر کے دروازے عوام اور سائلین کے لئے بند کر دیئے ہیں۔ حالانکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے نوکر شاہی کو حکم دے رکھا ہے کہ دن گیارہ سے ایک بجے کے دوران تمام سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز اور ڈپٹی سیکرٹریز اپنے اپنے دفاتر کے دروازے کھلے رکھیں اور اس دوران عوام کی شکایات سنیں اور سائلین کے مسائل حل کریں اور سائلین اور عوام کے روز مرہ کے کام کریں
اور خاص طور پر صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے سائلین کو ریلیف دیں۔ لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ میں یہ نوکر شاہی کسی کے بھی کنٹرول میں نظر نہیں آتی۔ چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت تمام محکموں کے سیکرٹریز وزیراعلیٰ پنجاب کی اوپن ڈور پالیسی کو فالو نہیں کر رہے اور بے چارے سائلین کو یا تو سول سیکرٹریٹ میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر وہ کسی طرح پنجاب سول سیکرٹریٹ میں داخل ہو جاتے ہیں تو انہیں کسی سیکرٹری سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہر محکمہ کے سیکرٹری نے اپنے دفتر اور کمرے کے باہر دربانوں کی ایک فوج بٹھا رکھی ہے جس کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کسی سائل کو دفتر میں داخل نہ ہونے دے۔
بے چارے سا ئلین ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے اور بالآخر جونیئر سٹاف کے ہاتھوں بلیک میل ہونے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے کام کرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر آئی جی آفس جانے کا اتفاق ہو تو یہ ایک قلعہ نما عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں پر سکیورٹی کے نام پر سائلین کو پریشان کیا جاتا ہے اور تھانوں، اضلاع کے ڈی پی او اور ڈی سی آفس کی طرح آئی جی آفس اور پنجاب سول سیکرٹریٹ بھی عوام کےلئے نو گو ایریا میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لاہور شہر کے ڈی سی آفس اور ڈی آئی جی آپریشنز کے دفاتر مکمل طور پر نو گو ایریاز ہیں۔ اس ساری صورت حال میں آخر عوام کہاں جائیں۔ اضلاع میں افسران عوام کو ملتے ہی نہیں، وہ صرف ایم این اے اور ایم پی اے کو ہی ملنا گوارا کرتے ہیں۔
اگر یہ نوکر شاہی عوام اور سا ئلین کو براہ راست ملنا شروع کر دے تو بہت سارے مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور عوام کی اخلاقی فتح بھی ہوگی اور جونیئر سٹاف کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر انہوں نے میرٹ پر کام نہ کیا تو یہ سائلین فوری طور پر سینئر افسر کو ملنے کی دسترس رکھتے ہیں، لہٰذا جونیئر افسر کے دل میں ایک انجانا خوف ہوگا اور سائلین کے نچلی سطح پر ہی کام ہونے لگ جائینگے اور ساتھ ساتھ سینئر نوکر شاہی کو فیلڈ کے افسران کا فیڈ بیک بھی ملتا رہے گا اور فیلڈ کے دفاتر ساتھ ساتھ فعال بھی رہینگے لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ کی صورت حال یہ ہے کہ افسران سارا دن ایوان وزیراعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے ایوان وزیراعلیٰ کے چکر لگانے میں مصروف رہتے ہیں اور دفاتر میں بیٹھے سارا دن ایوان وزیراعلیٰ کے دیئے گئے کاموں اور اجلاسوں کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور پھر سارا دن ایوان وزیراعلیٰ اجلاس میں شرکت کےلئے چلے جاتے ہیں جب ایک افسر دفتر میں موجود ہوگا تو سائل کا آدھا کام یہی پر ہو جائےگا لیکن اگر سینئر افسران ہی دفاتر سے اجلاسوں کے بہانے غائب ہونگے تو جونیئر سٹاف کا اللہ ہی حافظ ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے، اب پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ اوپن ڈور پالیسی کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں اور خاص طور پر تحصیل، ضلع کی سطح پر قلعہ نما بند دفاتر کو عوام کےلئے کھول دیں تاکہ عوام اپنے کام ہونے پر سکھ کا سانس لے سکیں۔ پتہ نہیں کون سا وزیراعلیٰ یا وزیر اعظم آئےگا جو افسر شاہی کی گردن سے سریا نکالے گا اور بیوروکریسی کو عوام دوست بنائے گا اور انہیں یہ دل سے باور کرائے گا کہ وہ عوام کے نوکر ہیں اور انہیں عوام کے کاموں کےلئے ہی بھرتی کیا گیا ہے