وسیم عظمت: بھارت میں لوک سبھا کے حالیہ الیکشن میں سب سے بڑا اپ سیٹ یہ ہوا کہ رام راج کے نام سے تشدد کی آگ بھڑکانے والی ہندوتوا پرست جماعت بھاجپا ، اپنی رام راج کیمپین کے گڑھ اُتر پردیش میں بری طرح پِٹ گئی۔
اتر پردیش میں نچلے طبقات اور غیر برہمن پاور گروپس کی نمائندہ سماج وادی پارٹی کو نیا جنم ملا اور وہ لوک سبھا کی آدھی نشستیں جیت گئی، کانگرس کو بھی 6 نشستیں مل گئیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی یہاں لوک سبھا کی 63 نشستوں میں سے 30 نشستیں کھو بیٹھی اور 33 نشستوں تک سکڑ کر رہ گئی۔
اتر پردیش میں لوک سبھا کی 80 نشستوں پر الیکشن کے مکمل نتائج آ چکے ہیں، سماج وادی پارٹی ایک بار پھر اتر پردیش میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے جبکہ بی جے پی کئی سال تک تشدد، تفرقہ، نفرت کی آگ بھڑکانے، درجنوں قتل کروانے اور لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیاں عذاب بنانے کے بعد بھی اس ریاست میں لوک سبھا الیکشن میں پیچھے رہ گئی۔
اتر پردیش سے باہر رہنے والے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی میڈیا کے زیر اثر عوام اور بھارت سے باہر رہنے والے مبصرین کے لئے اترپردیش لوک سبھا الیکشن 2024 میں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی اور کانگرس کو عوام کی حمایت ملنا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا درجنوں نشستیں کھو دینا ایک بڑا سرپرائز ہے لیکن خود اس ریاست کے شہریوں کے لئے یہ سرپرائز نہیں بلکہ نوشتہِ دیوار ہے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔
یو پی میں بی جے پی جو نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ان میں سے بیشتر پر انتہائی طاقتور مقامی افراد کامیاب ہوئے یا فلمی ستارے جن کا بھاجپا کے فلسفہ اور نریندر مودی کی تشدد کی سیاست میْں کلیدی کردار نہیں تھا۔ بی جے پی کو بڑا جھٹکا یہ لگا کہ "ہندوتوا کے رتھ پر سوار " مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی امیٹھی لوک سبھا سیٹ سے ایک لاکھ سے زیادہ ہار گئیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا پالیسی کے دیگر بھونپو بھی عوام کی عدالت میں شرمندگی سے دوچار ہوئے۔
سماج وادی پارٹی کی سرکردہ امیدوار ڈمپل یادو نے مین پوری کی نشست پہ بی جے پی کے امیدوار جےویر سنگھ کو شکست دی، جب کہ ان کے شوہر اور پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے بی جے پی امیدوار سبرت پاٹھک کے خلاف قنوج کا معرکہ جیت لیا۔
ایودھیا لوک سبھا کی سیٹ پر مشتمل فیض آباد میں، سماج وادی پارٹی کے اودیش پرساد بی جے پی امیدوار للو سنگھ سے 9,991 ووٹوں سے آگے ہیں۔
جے بھیم؛ برہمن پرست ہندوتوا کو امبیدکر کا فلسفہ اور جاٹ کی اکڑ لڑ گئی
اتر پردیش کی سیاست میں اپ سائیڈ ڈاؤن ہونے کی ایک دلچسپ وجہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جتنا زیادہ ہندوتوا کا پروپیگنڈا انجیکٹ کیا، اتنا ہی زیادہ سماج کی زیریں ذاتوں، برادریوں، مسلمانوں، مسیحیوں میں اس کا ردعمل پیدا ہوا اور اتنا ہی ہندو سماج کی درمیانی سے قدرے اوپری سمجھی جانے والی سیاست اور معیشت میں طاقتور جاٹ برادری میں اس کا ردعمل ہوا۔
جاٹ برادری بھارت کے جن علاقوں میں موجود ہے وہاں اس کی حیثیت طاقت کے ڈھانچے میں نمایاں سٹیک ہولڈر کی ہے۔ یو پی میں یادیو اور دیگر جاٹوں کی برادری کو برہمن پرستی پر مبنی ہندوتوا سے اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کو خطرہ یوگی آدتیہ ناتھ کی وزارت اعلیٰ اور نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے دوران بڑھا تو انہوں نے نامحسوس طریقہ سے ہندوتوا گزیدہ زیریں ذاتوں اور برادریوں کے ساتھ پہلے سماجی اور پھر سیاسی اتحاد بنا کر ہندوتوا پرست بھاجپا کو یو پی میں تنہا کر دیا۔
"جے رام جی" کے مقابلہ میں جے بھیم کا نعرہ خاموشی سے ابھرا اور اتنی طاقت کے ساتھ ابھرا کہ یو پی میں ہندوتوا کے خواب کو منتشر کر کے رکھ دیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں نئی دہلی میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں لوک سبھا اجلاس کے دوران گھس کر پر امن احتجاج کرنے کے دوران گرفتار ہونے والی خاتون نیلم نے بھی جے بھیم کا ہی نعرہ لگایا تھا جو ہندوتوا کے بھاجپا ایجنڈا سے بغاوت کا اظہار تھا۔ اور اس کمزور بے روزگار عورت کے محض ایک نعرے سے پورے بھارت میں ہندوتوا پرست تلملا اٹھے تھے۔ یہی نعرہ کچھ عرصہ پہلے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی مین سٹوڈنٹس کے احتجاج کے دوران روزانہ سننے کو ملا اور اس نے بھارت کے دور دراز دیہاتوں تک سٹوڈنٹس کو انسانی برابری کے امبیدکر وچاروں کی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس وقت اس کا اثر قابل اعتنا نہیں رہا ہو گا لیکن لوک سبھا کے الیکشن میں سب کچھ میٹیریلائز ہوا تو نتیجہ ہندوتوا کیمپین کی بربادی کی صورت میں سامنے ہے۔
عورت کا خاموش انقلاب
انتخابات کے نتائج کے ابتدائی تجزیہ سے یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ خواتین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا تختہ الٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ اپنے گھرانوں کو دباؤ کے دِنوں میں جھکنے سے روکے رکھا اور لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کے دن زیادہ سرگرمی کے ساتھ ووٹنگ میں حصہ لیا۔ بعض حلقے جہاں انڈیا الائنس کے امیدوار جیتے وہاں خاتین کا ٹرن آؤٹ ستر فیصد تک سامنے آیا۔ یہ خواتین ووٹر ٹرن آؤٹ مطلق تعداد میں مردوں سے زیادہ تھا۔
کانگریس کے راہول گاندھی اور کشوری لال شرما نے رائے بریلی اور امیٹھی میں بالترتیب 3.9 لاکھ اور 1.6 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، جہاں بالترتیب 5,23,822 اور 4,92,861 خواتین نے ووٹ دیا۔ دیگر 10 سیٹوں پر جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ مردوں سے زیادہ تھا وہاں ایس پی نے کامیابیاں سمیٹیں، ان حلقوں میں سلطان پور، پرتاپ گڑھ، امبیدکر نگر، بستی، سنت کبیر نگر، اعظم گڑھ، جونپور، سلیم پور، لال گنج اور مچلیشہر کی لوک سبھا سیٹیں شامل ہیں جہاں بی جے پی کے مضبوط امیدواروں کو خاک چاٹنا پڑی۔
باقی پانچ سیٹوں پر جہاں مردوں سے زیادہ خواتین نے ووٹ ڈالے وہ ڈومریا گنج، بانسگاؤں، مہاراج گنج، کشی نگر اور دیوریا تھیں۔ ان میں بی جے پی جیت رہی تھی۔
سماج میں کمزور حیثیت کی مالک عورتوں نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں خود کو حاصل ووٹ کے ہتھیار کو واقعی دلجمعی کے ساتھ استعمال کیا اور اپنے اجتماعی دشمن کو ٹھکانے لگا ڈالا۔
بی ایس پی سپریمو مایاوتی کا تجزیہ
سماج وادی پارٹی کی سپریم لیڈر مایا وتی نے بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن سے انتخابی مدت کو کم کرنے کی درخواست کی تھی جو تقریباً ڈھائی ماہ تک جاری رہی۔ اس نے یو پی کے جاٹوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے زیادہ تر سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا اور اپنی مشنری ذمہ داری کو پورا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے گی اور بابا صاحب بھیم راؤ امبید کر کے اصولوں پر عمل پیرا رہے گی۔