سٹی42 : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مستردکردی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کی،سماعت کے دوران مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے مصطفیٰ کمال کی 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی کا بیان پڑھ کر سنایا اور عدالت سے استدعا کی کہ مصطفیٰ کمال کی غیرمشروط معافی قبول کرکے توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ وہ اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں نہیں ہیں؟ کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واوڈا سےمتاثر ہوکر دوسرے روز میڈیا سے گفتگو کی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم نامہ کیا تھا؟ دکھائیں! کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ ایسی گالم گلوچ کسی اور ملک میں ہوتی ہے ؟مجھے جتنی گالیاں پڑی ہیں شاید کسی کو نہ پڑی ہوں ، کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا،آپ نے عدلیہ پر بات کی اس پر نوٹس لیا ، ٹی وی چینل والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ٹی وی چینلز کہہ دیتے فلاں نے تقریر کی ہم نےچلادی، یہ اظہاررائے کی آزادی ہے، ٹیلی ویژن چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں،کیا اب چینلز کو بھی نوٹس کریں؟ اس پر اٹارنی جنرل عثمان اعوان نے جواب دیا میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز ریمارکس دیئے کہ کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی؟ آپ نےکس حیثیت میں میڈیا ٹاک کی،آپ کیا بارکونسل کے جج ہیں؟ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں، بڑی بڑی ٹوئٹس کرجاتے ہیں، جو کرنا ہے کریں، بس جھوٹ تو نہ بولیں ، صحافیوں کو ہم نے بچایا ان کی درخواست ہم نے اٹھائی،پیمرا نے عجیب قانون بنادیا کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے، عدالتی کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی؟ ہم ابھی کچھ بھی نہیں کررہے،پہلے کنڈکٹ دیکھیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ٹی وی چینلز سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔