(ویب ڈیسک)دفتر خارجہ کی جانب سے ڈیجیٹل سفارت کاری کا نیا سلسلہ،دفتر خارجہ نے نئی پوڈ کاسٹ سروس کا آغاز کر دیا،پہلی پوڈ کاسٹ میں خصوصی طور پر سائفر سکینڈل کے مرکزی کردار اور 31ویں سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان کا انٹرویو،اسد مجید خان نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ میں دشمنی اور تناو میں اضافہ ایک چیلنج ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے 31ویں سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان کا انٹرویو کیا،ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر اسد مجید خان حال ہی میں 35 سالہ ملازمت کے بعد فارن سروس سے ریٹائر ہوئے۔ اسد مجید خان نے بتایا کہ بطور اٹارنی اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کا آغاز کیا,میرے خیال میں اپنے ملک کی نمائندگی اور اس کے نظریات کو لے کر بڑھنے سے زیادہ اہم کچھ نہیں تھا, اسی وجہ سے بطور اٹارنی اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے کے بعد فارن سروس میں آ گیا۔
سابق سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ اپنی 36 سالہ ملازمت کے بعد مجھے کسی قسم کی کوئی پشیمانی نہیں,فارن سروس میرے لیے ریوارڈنگ کیئر رہا, یہ فارن سروس ہی ہے جیاں آپ اپنی ذاتی محنت سے اپنے لیے جگہ بنا سکتے ہیں, آہ اس پیشے میں اپنی خواہش سے آتے ہیں تاہم وہ خواہش فیملی کی نہیں ہوتی, وقت کے ساتھ گلیمر ختم ہو جاتا ہے اور آپ کو مشکل چوائس اور مشکل ایڈجسٹمنٹس کا انتخاب کرنا ہڑتا ہے, ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ آپ انگریزی بولنے والے ممالک میں ہی تعینات ہوں,ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ آپ کو آسان اسٹیشنز پر تعینات کیا جائے۔
بعض مرتبہ اسٹیشنز رہائش یا سیکیورٹی کے حوالے سےبھی مشکل ہوتے ہیں, پاکستان میں اپنے اہل خانہ, دوستوں کے ساتھ یا کسی اور طرح سٹریس کو نکالنا آسان ہوتا ہے،تاہم ایسی جگہ جہاں عزیز و اقارب نہ ہون یا مثلا 2 رکنی مشن ہو تو یہ صورتحال ایک چیلبج بن سکتی ہے, اپنے کیرئیر کا آغاز جاہان سے کیا تو بعد میں جاہان میں سیکرٹری سے سفیر بن کر جانا اطمینان بخش تھا, زبان شناسی کے باعث مرحوم جاپانی وزیر اعظم ایبے نے مجھے جاپانی بولنے والے سفارت کاروں کے عشائیے میں مدعو کیا,میں پاکستان کا پہلا جاپانی بولنے والا سفیر تھا۔
اسد مجید خان نے کہا کہ اس وقت ہمارے کیے بیرونی سے زیادہ اندرونی چیلنجز ہیں,اگر آپ کے ملک یا معاشرے میں ربط نہیں ہے تو آپ ایک مربوط خارجہ پالیسی نہیں رکھ سکتے,اقتصادی استحکام آپنکے سفارت کاروں کو وہ اسپیا فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے ہم منصبوں سے بامعنی بات چیت کرتے ہیں،مربوط بنانا اور بہتر اور موثر گورننس ایک سفارت کار کو اسپیس فراہم کرسکتے ہیں,اس وقت دنیا میں جیو بولیٹیکل ماحول ایک بہاؤ میں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ میں دشمنی اور تناو مین اضافہ ایک چیلنج ہے,اس چیلنج کا بہت سے ممالک اور پاکستان سمیت درمیانی درجہ کی طاقتوں کا سامنا ہے,پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ان دونوں ممالک سے اچھے اور تاریخی گہرے تعلقات رہے ہیں,یہ ہمارے خطے, ہماری ہمسائیگی میں تنازعات اور عدم استحکام سفارت کاری میں بالخصوس ہمارے سفارت کاروَں کے لئے چیلنج پیدا کرتے ہیں,کسی بھی ملک کے سفارتکاروَ اور سفارتکاری کو کثیر الجہتی میدان میں ہی جانا جا سکتاہے, کثیر الجہتی میدان میں ہی سفیروں کی کارکردگی کا علم ہوتا ہے۔
پاکستان کے بیرونی تجارتی تعلقات, مختلف علاقائی گروپس میں پاکستان کی رکنیت اہم ہے,بدقسمتی سے سارک اس وقت عدم فعال ہے ،مجھے سارک کا کسی بھی وقت پیس یا مومینٹم حاصل کرنا دکھائی نہیں دے رہا,اگرچہ ہمارے پاس ساوتھ ایشئن فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہے،تاہم ہم اس کے زریعہ قابل ذکر تجارت نہیں کر رہے,چین اس وقت عالمی تجارت کے بڑے کھلاڑیوں کے طور ابھر رہا ہے,ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ جبکہ ترکیہ اقتصادی طور پر بہتر ہو رہا ہے, ہم نے 50 برس قبل آر سی ڈی کا معاہدہ کیا, آسیان کچھ عرصہ قبل تشکیل پائی تاہم اب اہم علاقائی گروپوں میں شامل ہے,
ہماری وسطی ایشیا اور یورو ایشیا سے تجارت اور دیگر دیگرمواصلاتی رابطے ہیں, یہ میرا یقین ہے کہ یہ لمحہ آر سی ڈی کا لمحہ ہے, لینڈ لاک وسطی ایشیاء ایران اور پاکستان کے زریعہ یا مشترکہ دونوں کے زریعہ تمام رکن ممالک کے لیے مفید ہو سکتا ہے, اس وقت پاکستان کو ای سی او میں سرگرم کردار ادا کر کہ نئی روح پھوبکنا چاہیے۔
پاکستان کو ای سی او کو بطور پلیٹ فاتم استعمال کر کہ اپنے فوری اور دور کے.ہمسائیوں سے تجارت بڑھانا چاہیے,ایس سی او بھی ایک اہم تنظیم ہے جس میں پاکستان شامل ہے،ہم ان مواقع سے افغانستان میں عدم استحکام کے باعث بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکے,ہمیں اس ملک میں بڑے اور وسیع پیمانے پر سروس اصلاحات کی ضرورت ہے, اصلاحات کی ضرورت نہ صرف وزارت خارجہ بلکہ ہوری سول سروس کو ہے, اس کو صرف وزارت خارجہ کی نہیں بلکہ حکومت کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔