پانچ جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن

5 Jul, 2021 | 01:25 PM

مانیٹرنگ ڈیسک، عمر اسلم: پانچ جولائی 1977 پاکستان میں جمہوریت کے لئے پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام یوم سیاہ کے طور پر منایا جارہا ہے، اس دن جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ کہتے ہوئے تحلیل کیا کہ یہ اقدام ملک کو انتخابات کے بعد ہونے والی بدامنی سے بچانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ 5 جولائی 1977 کو ہونے والی فوج کی اس کارروائی کو "آپریشن فیئر پلے" کا نام دیا گیا تھا۔

اس اعلان کے بعد اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ فوج کی مداخلت کی واحد وجہ جمہوریت کی بقا کو یقینی بنانا ہے اور اس بات کا عزم کیا کہ وہ 90 دن میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیر اعظم تھے اور ان کے بظاہر فوج کے ساتھ تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے۔ کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ بھٹو نے 1971 میں اقتدار میں رہنے کے بعد سے دو فوجی بغاوتوں کو ناکام بنایا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ وہ مارچ کے انتخابات کے بعد حزب اختلاف پاکستان نیشنل الائنس (نیپ) کے ساتھ معاہدہ کرنے والے تھے۔ اس پر 5 جولائی کو دستخط کئے جانے تھے، لیکن جنرل ضیاء نے مارشل کا اعلان کردیا۔

5 جولائی اچانک نہیں آگیا تھا۔ یہ انتخابی عمل اور عوامی رائے کی پامالی کا فطری نتیجہ تھا جو بھٹو مرحوم کے دورِ استبداد اور دورِ ستم کے بعد ظہور پذیر ہوا تھا۔ جس کا راستہ بھٹو مرحوم نے خود اپنے ہاتھوں سے ہموار کیا تھا۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل الائنس آف پاکستان دونوں کے رہنماؤں کو ابتدائی طور پر تحویل میں لیا گیا تھا، تاہم مارشال لا کے نفاذ کے بعد انہیں رہا کردیا گیا، بعد ازاں بھٹو کو 'قتل کے الزام میں' گرفتار کیا گیا اور 1979 میں انہیں قصوروار ٹھہرا کر پھانسی دے دی گئی۔

وعدے کے مطابق جنرل ضیا کو 90 دن میں انتخابات کراونے تھے۔ لیکن جب انتخابات ہوئے تو  90 دن کی جگہ تقریباً 90 ماہ گزر چکے تھے۔ اور انہوں نے خود کو ایک ریفرنڈم میں صدر منتخب کرلیا۔ جنرل ضیا نے اپنے 11 سالہ دور حکمرانی میں بیک وقت صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدوں کو اپنے ہاتھ میں رکھا۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری نے 5 جولائی1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے حوالے سے منائے جانے والے دن کے موقع پراپنے ایک پیغام میں کہا کہ آمر ہلاک ہوگئے لیکن تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔فوجی بغاوت میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ آمروں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کی سوچ نہیں بدلی۔بے نظیربھٹو شہید نے جمہوری جدوجہد کے ذریعے دو آمروں کو شکست دی ،جمہوریت کے لئے جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی،پارلیمنٹ بالاتر ہے کا بیانیہ غالب آئے گا۔

سابق صدر نے پاکستان میں آئین اور جمہوریت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ 18 ویں ترمیم آمروں کے خلاف جمہوری انتقام ہے ۔ پارلیمنٹ کو مجروح کرنا جمہوریت سے انتقام ہے ۔ 1973 کا آئین وفاق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ 5 جولائی کو ہمیشہ پاکستان کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔ ایک بغاوت جس نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہاتھا کہ یا تو اقتدار لوگوں تک پہنچنا چاہیے ، یا سب کچھ ختم ہوجائے گا،یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی سچے ہیں ۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں منعقدہ تقریب میں صدر پیپلزپارٹی لاہور عزیز الرحمان چن، سونیا خان، عثمان ملک، عاصم محمود بھٹی، رانا جمیل منج،تجزیہ نگار امتیاز عالم سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کارکن جئے بھٹو اور آمریت مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔سینئرنائب صدر پیپلزپارٹی وسطی پنجاب چودھری اسلم گل نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے حقوق اور ملک کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

پیپلزپارٹی کے دیگر رہنمائؤں نے کہا بھٹو نے بہادری سے عوامی فیصلے کئے، جس کی سزا دی گئی، پانچ جولائی 1977 کو ان کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر خالد جاوید جان،صدر پیپلزپارٹی شعبہ خواتین لاہور نرگس خان،منشا پرنس،شاہدہ جبیں،عمر شریف بخاری،مسعود ملک،صداقت شیروانی،عمر ایاز ،نسیم صابر،رائو شریف سمیت دیگر بھی موجودتھے۔ 

مزیدخبریں