ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

غزہ جنگ بندی؛ حماس نے ثالثی کا دوبارہ آغاز کر دیا

Doha mediation, Diplomacy, Gaza War, city42
کیپشن: چودہ ماہ سے حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کے رشتہ دار اور ہمدرد  تل ابیب میں 30 نومبر 2024 کو  ایک ریلی میں شریک ہیں۔ اس کا مقصد اسرائیل کی حکومت کو  یرغمالیوں کی واپسی کے لئے حماس کے ساتھ جلد کوئی یارینجمنٹ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔  ( فوٹو  : Avshalon Sasani/Flash90)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  قطر نے  غزہ میں ثالثی کا کردار دوبارہ شروع کر رہا ہے کیونکہ صدر جو بائیڈن کے ڈپلومیٹس بھی یہی چاہتے ہیں، حماس بھی یہی چاہتی ہے اور اب ڈونلڈ ٹرمپ بھی جہنم بنا دینے کی دھمکی کے ساتھ یہی چاہ رہے ہیں کہ قطر جلد حماس اور اسرائیل کی جنگ بند کروا دے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر رسمی نمائندہ  اسٹیو وٹ کوف نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لئے مذاکرات کو لے کر  نیتن یاہو اور قطر کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کی، جنہوں نے پھر موساد کے سربراہ سے ملاقات کی۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ قطر نے حماسکے نمائندوں کو مذاکرات کے نئے دور کے لیے دوحہ واپس آنے کی دعوت دی ہے۔  

Caption     بائیں سے دائیں: امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے آنے والے ایلچی اسٹیو وٹ کوف، میڈیسن اسکوائر گارڈن، نیویارک، 27 اکتوبر 2024 میں ٹرمپ کی انتخابی ریلی میں۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو 3 دسمبر 2024 کو نہاریا میں ایک حکومتی اجلاس میں۔ (Maayan Toaf/GPO); قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی 27 نومبر 2024 کو مصر کے نئے انتظامی دارالحکومت میں ایک اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ (خالد ڈیسوکی/اے ایف پی)


صدر بائیڈن کی غزہ جنگ بندی ڈپلومیسی
ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے غیر رسمی ایلچی سٹیو وٹ کوف نے 20 جنوری کو ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں شروع کرنے کے لیے قطر اور اسرائیل کا سفر کیا، کوف کے اس وزٹ سے پہلے ہی یہ سامنے آ چکا تھا کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن گزشتہ ہفتے غزہ جنگ بندی کے لئے اپنے ڈپلومیٹس کو متحرک کر چکے ہیں۔ ان کے ڈپلومیٹس کو بھی قطر، مصر، اسرائیل، کے نمائندوں سے ہی ملاقاتین کرنا تھیں۔ اس دوران ہی یہ سامنے آیا کہ حماس پوری توجہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی بات کر رہی ہے۔ اس کے بعد حماس اور الفتح کے دوران ایک انڈرسٹینڈنگ ابھرتی بھی دکھائی دی جس کا مقصد غزہ مین جنگ بندی کے بعد ایک ٹیکنوکریٹ گروپ کی قیادت مین عبوری انتظام کی مشترکہ فلسطینی تجویز سامنے لانا ہے۔ اسرائیل پہلے بتا چکا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے باوجود وہاں موجود رہے گا اور حماس کا غزہ کی ری کنسٹرکشن کے عمل میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ ان ڈیویلپمنٹس کے درمیان امریکہ کے 20 جنوری کو چارج لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر رسمی نمائندہ بھی دوحہ اور یروشلیم کے چکر لگا گیا ہے۔

دوحہ اپنا کردار دوبارہ شروع کر رہا ہے

ذرائع نے بتایا کہ آنے والے ایلچی سٹیو وٹ کوف نے نومبر کے آخر میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے الگ الگ ملاقات کی۔

ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوف کی ملاقاتیں اشارہ کرتی ہیں کہ خلیجی ریاست قطر نے گزشتہ ماہ اپنا کردار معطل کرنے کے بعد ایک اہم ثالث کے طور پر اپنا کردار دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

قطر نے امریکہ اور مصر کے ساتھ کئی مہینوں تک بے نتیجہ بالواسطہ بات چیت پر کام کیا تھا جس کے نتیجے میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دیرپا جنگ بندی یا حماس کی قید سے  100 سے زائد یرغمالیوں اور لاشوں کی واپسی نہیں ہوئی تھی البتہ اس دوران غزہ کے اندر آپریشنز کے دوران حماس کے سربراہ یحیٰ سنوار کے علاوہ کئی دوسرے اہم کمانڈر بھی مارے گئے اور سینکڑوں مزید فلسطینی  مہاجر حماس کے جنگجوؤں پر اسرائیل کےحملوں کے دوران بے موت مارے گئے۔  غزہ  جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی تھی، جب حماس کے زیر قیادت ہزاروں جنگجو  جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئےتھے۔ انہوں نے  تقریباً 1,200 افراد  کو کچھ گھنٹوں میں ہلاک کر دیا تھا اور 251 کو اغوا کر لیا تھا۔

اب بتایا جا رہا ہے کہ حماس کے مذاکرات کار ممکنہ طور پر مذاکرات کے نئے دور میں سہولت فراہم کرنے کے لیے قطری دارالحکومت دوحہ واپس جائیں گے۔

"اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بعد کے دور کا جلد ہی دوحہ میں آغاز ہونے کا امکان ہے، لیکن کوئی خاص تاریخ طے نہیں کی گئی ہے"۔

قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا کلیدی ثالث رہا ہے۔ تاہم اس نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا  ثالث کا کردار معطل کر رہا ہے جب تک کہ وہ دونوں فریق مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے "آمادگی اور سنجیدگی" ظاہر نہیں کرتے۔

منگل کو، دوحہ میں وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ حماس اور اسرائیل کے مابین رابطہ کاری کا وقفہ اب بھی برقرار ہے۔ یہ اعلان امریکی صدر جو بائیڈن کے گزشتہ ہفتے کیے گئے ریمارکس سے بظاہر متصادم دکھائی دیتا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قطر مصر اور ترکی کے ساتھ مل کر یرغمالیوں کے معاہدے کے لیے ایک نیا دباؤ شروع کرے گا۔ تاہم اب تصدیق ہو رہی ہے کہ دوحہ کے ڈپلومیٹ اپنا کام شروع کر چکے ہیں۔

Caption   28 نومبر 2024 کو وسطی غزہ کی پٹی کے نوصیرات کیمپ میں اسرائیلی فضائی حملے کے دوران فلسطینی حفاظت کے لیے بھاگ رہے ہیں (علی حسن/Flash90)

اسرائیل کے  روزنامہ ہاآریتز نے مذاکرات کے عمل سے وابستہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دوحہ نے ثالث کے طور پر اپنا کردار دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

قطر کے وزیراعظم الثانی نے بدھ کے روز اسکائی نیوز کو تصدیق کی کہ ٹرمپ کے ایک اہلکار نے انہیں بتایا تھا کہ آنے والے صدر 20 جنوری تک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔

الثانی نے کہا کہ "آج بھی ہم نے ان کی ٹیم سے یہ سنا تھا... کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ (یرغمالیوں کا سودا) اب حل ہو جائے "۔

ٹرمپ نے پیر کے روز  دھمکی دی تھی کہ اگر غزہ کی پٹی میں یرغمال بنائے گئے افراد کو ان کے حلف برداری سے قبل رہا نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں " جہنم" ہوگا۔ بدھ کے روز،  ٹرمپ  نے اسرائیل کے یرغمالیوں کی واپسی کے مذاکرات سے متعلق  اپنے غیر رسمی ایلچی کے لیے ایک اہم مذاکرات کار ایڈم بوہلر کا نام لیا۔

وِٹکوف، ایک رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار اور ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لئے بڑا چندہ دینے والوں میں سے ایک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے  قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں، لیکن ان کا اس سے قبل کوئی سفارتی تجربہ نہیں،  وٹکوف نے 22 نومبر کو دوحہ میں الثانی، جو وزیر خارجہ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، سے ملاقات کی۔

"دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ٹرمپ کے وائت ہاؤس آنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ایک بار ٹرمپ انتظامیہ اقتدار سنبھالنے کے بعد غزہ اور خطے کو مستحکم کرنے جیسے دیگر امور کی طرف بڑھ سکے،"

سنجیدگی سے دیکھا جائے تو امریکہ کے چار سال سے صدر اور غزہ جنگ کے معاملہ کو پہلے روز سے دیکھ رہے موجودہ امریکی ڈپلومیٹس کی جانب سے غزہ جنگ بندی کے لئے عملی  اقدامات لے چکنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 جنوری سے پہلے جنگ  بندی کی بڑھک غیر ضروری تھی اور سرکاری دپلومیٹس کی دوحہ اور  اسرائیل مین رابطہ کاری کے بعد ٹرمپ کے نمائندہ کی غیر سفارتی رابطہ کاری غیر ضروری تھی تاہم اسے اس لئے اہم تصور کیا جا رہا ہے کہ اس کا تعلق آئندہ چار سال امریکہ کے صدر رہنے  والے شخص سے ہے۔ 

وٹکوف نے اگلے دن اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے فوری طور پر رائٹرز کی تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ وٹکوف نے اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔

گزشتہ  مہینے ہی قطر کے وزیراعظم  الثانی نے موساد کی جاسوسی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ برنیا سے ملاقات کے لیے ویانا کا سفر کیا، الثانی درحقیقت اس مجوزہ جنگ بندی مزاکرات کا اہم ترین ستون ہیں۔ انہوں نے گزشتہ 14 مہینوں میں یرغمالیوں کے معاہدے اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل کی بات چیت کی قیادت کی۔

ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ بائیڈن کے معاونین وٹ کوف کی ملاقاتوں سے واقف ہیں۔  اور سمجھتے ہیں کہ وٹ کوف غزہ کے معاہدے کی حمایت کرتا ہے جس پر انتظامیہ عمل کر رہی ہے، لیکن امریکی انتظامیہ نے ٹرمپ کے اس نمائندے کےساتھ ہم آہنگی کی ضرورت نہیں دیکھی۔

باضابطہ طور پر، بائیڈن انتظامیہ، وٹ کوف کے بجائے، غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششوں میں امریکی برتری کو برقرار رکھ رہی ہے۔

ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ٹرمپ کے ایلچی اور سرکاری ڈپلومیٹس، دونوں فریقوں نے براہ راست ایک ساتھ کام نہیں کیا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو وٹ کوف کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت نظر نہیں آتی کیونکہ وہ  اس تنازعہ کے اصل کرداروں کے ساتھ  وٹ کوف  کی بات چیت کو زیادہ تر "بات چیت کے بجائے مسائل کو سیکھنے کی کوشش " کے طور پر دیکھتی ہے۔

ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم اور وٹ کوف کے نمائندوں نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔


ٹرمپ کے "جہنم بن جانے" کے انتباہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کے روز روئٹرز کو بتایا کہ ان کا تبصرہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں کی طرف سے مشترکہ جنگ بندی اور یرغمالی معاہدے کی عجلت کی "طاقتور عکاسی" ہے۔

"ہم یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی کرانے کی کوشش کرنے کے لیے چھوڑے گئے ہر راستے کا تعاقب کریں گے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ منتخب صدر کا بیان اس بات کو تقویت دیتا ہے،" بلنکن نے کہا۔

اسرائیل کے چینل 12 کی خبر کے مطابق، ایک اسرائیلی وفد مصر کی طرف سے پیش کردہ ایک نئی تجویز پر بات چیت کے لیے اگلے ہفتے کے اوائل میں قاہرہ کا سفر کرنے والا ہے۔

اس تجویز میں 45 سے 60 دنوں کی ابتدائی عارضی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کا تصور کیا گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے ہاتھوں 7 اکتوبر کو اغوا کیے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 96 غزہ میں موجود ہیں، جن میں کم از کم 34 کی لاشیں شامل ہیں جن کی IDF نے تصدیق کی ہے۔

حماس نے نومبر کے آخر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران 105 شہریوں کو رہا کیا، اور اس سے پہلے چار مغویوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ آٹھ یرغمالیوں کو فوجیوں نے زندہ بچا لیا ہے، اور 38 یرغمالیوں کی لاشیں بھی برآمد کر لی گئی ہیں، جن میں تین کو فوج کے ہاتھوں غلطی سے مار دیا گیا جب وہ اپنے اغوا کاروں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

حماس نے 2014 اور 2015 میں پٹی میں داخل ہونے والے دو اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ 2014 میں ہلاک ہونے والے دو IDF فوجیوں کی لاشیں بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔