یوم استحصال کشمیر

تحریر : اسعد نقوی

5 Aug, 2024 | 09:27 PM

 5 اگست 2019 کو بھارت نے  غیر قانونی اور  ظالمانہ  اقدامات اٹھاتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا  جو  بھارتی حکومت  اپنے آئین کے مطابق ختم  نہیں کرسکتی تھی ۔ آج نام نہاد جمہوریت پسند بھارت کے ظالمانہ اقدام کو  5 برس مکمل ہوچکے ہیں ۔ جمہوریت کا نعرہ  لگانے والی حکومت کے خلاف یوم استحصال کشمیر منایا جارہا ہے تاکہ نریندر مودی اور  بھارتی حکومت کی طرف سے 2019میں غیر قانونی اور دھوکا دہی  کو عالمی سطح پر بھی ریکارڈ میں لایاجاسکے ۔ 

بھارت کے یہ ظالمانہ  اقدامات  نئے نہیں ہیں ۔ 77 برس سے بھارت کشمیر پر اپنے  پنجے  گاڑے ہوئے ہے ۔اور نہ صرف انسانی حقوق بلکہ اقوام متحدہ کے  قوانین کی بھی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق  مقبوضہ کشمیر  کے محض چند ہزار مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی  فوجی قابض ہیں ۔جہاں وہ  ہر ظلم  ڈھا رہے ہیں ۔ ریفرینڈم سے انکار کرکے جمہوریت کے لبادے کو بھارت نے اس وقت لپیٹ دیا جب اس نے 370 ارٹیکل کو ختم کیا ۔

اس کہانی کا آغاز تو  اپریل 2019 میں ہوگیا تھا جب  بھارتی  جنتا پارٹی  عام انتخابات میں کامیاب ہوئی  اور نریندر مودی نے  وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار حلف اٹھایا ۔ نریندر مودی وہی تھے جو اقتدار میں آنے سے قبل بھی گجرات میں  مسلمانوں کے خلاف  ساری حدیں پار کرچکے تھے ۔  

ان عام انتخابات میں بی جے پی جماعت کامیاب ہوئی اور نریندر مودی نےاپنی  حکومت کے محض  4 برس بعد ہی  کشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون  ختم کردیا ۔ انہوں نے  ایوان بالا سے آرٹیکل  370 کو ختم کروایا جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم  کی ۔ اسی قانون سازی کے عمل میں بھارت میں بھی ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن  نے  واک آوٹ کیا ۔

 دوبارہ وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار کی کرسی سنبھا لی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس حکومت نے سنگ دلی و عصبیت کا سب سے بڑا قدم اٹھایا اور کشمیر کی حق خود ارادیت پر شب خون مارتے ہوئے اس کی خود مختاری کو چیلنج کیا۔ بی جے پی حکومت کے قیام کو ابھی چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے پارلیمان سے اندھے قوانین پاس کرنے کا گھناؤنا عمل شروع کیا۔

غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ مودی نے بھارتی آئین کا قتل کیا 

 آرٹیکل 370 کے  مطابق  کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ کشمیر کو اپنا آئین اور اپنا جھنڈا دیتا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور اس کے آئین اور جھنڈے کو بھی ضبط کیا گیا۔جمہوریت پسند   بی جے پی حکومت نے جمہوریت کا جنازہ  اٹھا تے ہوئے  صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35 اے کو بھی ختم کردیا۔ دفعہ 35اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔اور اگر یہ قانون قائم رہے تو  بھارت اپنی جارحیت قائم نہیں رکھ سکتا ۔ اس نے اپنے آئین سے غداری کی اور جمہوریت کا لبادہ لپیٹ کر  دفعہ 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے لوگوں کی کشمیر میں آباد کاری کا سلسلہ شروع  کردیا۔ نتیجے کے طور پر گزشتہ پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں لاکھوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔ ظلم  تو بڑھتا گیا ۔ 6 اگست 2019 کو ری آرگنائزیشن کے نام سے ایک ایکٹ بھی منظور کرایا گیا۔

اس ایکٹ نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کیا  دونوں حصوں کو بھارتی مرکزی حکومت کےحوالے کردیا ۔ کشمیر کے الگ تشخص کو پامال کیا ۔ نہ صرف کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کی گئی بلکہ اس کے تمام امور پر ان سے فیصلوں کا حق بھی چھین لیا۔جمہوریت اور اظہار رائے کا دعوی ٰ کرنے والی  حکومت نے  کشمیر میں بلیک لسٹ  بھی جاری کردی جس کے مطابق  صرف منتخب نیوز سائٹ شامل ہوتی ہیں،  کشمیریوں کی  اس کے علاوہ باقی نیوز سائٹ تک رسائی ناممکن بنا دی گئی۔

اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں حقِ خودارادیت سے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے، سب کوشش ناکام ہیں  کیونکہ عالمی برادری کی سیاسی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے ۔   سیاسی نمائندگی، تعلیم، آزادی اظہاررائے اور زندگی کا حق جیسے بنیادی حقوق کشمیریوں کے لیے شاید ناممکن ہیں  عالمی جمہوری علمبردار اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی بدولت بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور کالے قوانین پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم بھی  بس بول کر خاموش ہوجاتے ہیں عملی طور پر ابھی تک کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان بھارت یا کشمیر کے اندر کشمیریوں کی مسلح جد و جہد کی مدد نہیں کر سکتا۔ اب یہ مسئلہ صرف پاک بھارت کا نہیں بلکہ انسانی حقوق  کا ہے ۔ کیونکہ انسانی  حقوق کی سب سے زیادہ پامالی  یہیں کشمیر میں ہو رہی ہے ۔  

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے چھ کا لے قوانین ہیں 1۔ جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ; 2۔ دہشت گردی اور خلل ڈالنے والی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ; 3۔ آرمڈ فورسز (جے اینڈ کے ) سپیشل پاورز ایکٹ 4۔ جموں و کشمیر ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ; 5۔ دہشت گردی کی روک تھام کا ایکٹ; 6۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ مقبوضہ کشمیر میں لاگو ہیں۔
آرٹیکل 370 جو مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا اور آرٹیکل 35 اے کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ کون مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔ اس کے ختم ہونے کے بعد سے تب سے وہاں بدترین مظالم شروع ہو گئے۔ آرٹیکلز کو منسوخ کرنا بھارتی آئین، اقوام متحدہ کی قراردادوں، جنیوا کنونشن، کشمیری عوام کی مرضی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔

بھارتی آئین کہتا ہے کہ دفعہ 370 کو یک طرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ اس مخصوص معاملے میں ہندوستانی اتھارٹی صرف لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے اپنے ہی آئین کے خلاف گئی ہے۔ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا بھارت کا غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدام کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں یعنی یو این ایس سی آر 38، 47، 51، 91 اور 122 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ عمل پاکستان اور بھارت کے درمیان 1972 کے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے  عالمی  برادری ، پاک بھارت کے  درمیان  معائدےاور اقوام متحدہ  سمیت ہر فورم کی نفی کی گئی ۔ اب دور ایسا  ہے کہ  انسانی  حقوق کو مدنظر رکھا جائے اور  جس طرح  بھارت نے ہمارے  خلاف اور کشمیر کے خلاف جھوٹا پراپیگینڈا پھیلانے کے لیے  ڈیجیٹل  وار لڑی ہے ۔ اس نے  جھوٹا بیانیہ اس قدر پھیلایا ہے کہ  اس کو عالمی برادری  سچ ماننے لگی ہے ۔ اب  وقت یہی ہے کہ ہمیں  دلائل کے ساتھ  بھارت کے ہر پراپیگنڈا کا جواب دینا ہوگا اور کشمیر کے حوالے سے  حقائق عالمی برادری کو دکھانے ہوں گے تاکہ  بھارتی  جارحیت کا منہ توڑ جواب  ڈیجیٹل  انداز میں ہی دیا جاسکے ۔ 

مزیدخبریں