وسیم عظمت: پیرس اولمپکس 2024 میں کئی باتیں بہت خاص ہیں لیکن رگوں مین لہو کی گردش کی رفتار دوگنا کر دینے والی بات یہ ہے کہ وہاں کھیلنے والے اتھلیٹس میں آدھی عورتین ہیں۔ عورتوں کی برابری اور حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے پیرس اولمپکس 2024 ایک گیم چینجر ایونٹ ہے جس نے عورتوں کی برابری کو کھیل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معنویت عطا کر دی ہے۔
پیرس اولمپکس میں شریک کھلاڑیوں میں آدھی تعداد چند دہائیاں پہلے تک "نازک صنف" کے بظاہر خوبصورت ٹائٹل سے موسوم کر کے عملاً کمزور قرار دے کر پیچھے رکھی جانے والی خواتین کی ہے۔ یہ خواتین کھیل کے سب سے بڑے ایرینا پر نہ صرف اپنی نابغہِ روزگار مہارتوں، ہنر، تخلیقیت، طاقت، جوش اور جذبوں کے آنکھیں خیرہ کر دینے والے مظاہرے کر رہی ہیں بلکہ مستقبل کی دنیا میں عورتوں کے لئے مزید سپیس پیدا کرنے کا سامان بھی کر رہی ہیں۔
پیرس اولمپکس میں مرد کھلاڑیوں کے برابر لڑکیوں کی شرکت نے درحقیقت دنیا کو چونکا دیا ہے لیکن یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئی۔ دراصل گزشتہ کئی سالوں سے خواتین کے کھیلوں کی دنیا کھیل کو بدلنے والی تبدیلی سے گزر رہی ہے، اب کھیلوں میں شریک خواتین کو بے مثال توجہ اور پہچان حاصل ہو رہی ہے جو ان جیسی دوسری لڑکیوں کو کھیلوں میں اپنے جوہر دکھانے پر ابھار رہی ہے۔
پیرس اولمپکس تاریخ میں سب سے زیادہ صنفی مساوی ہی نہیں یہ لڑکیوں کو آگے بڑھنے پر اکسانے والا سب سے بڑا انرجائزر بھی ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ سنگ میل ان خواتین کھلاڑیوں کی انتھک کوششوں اور نمایاں کامیابیوں کا ثبوت ہے جو ریکارڈ توڑ رہی ہیں، دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں اور آنے والی نسلوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
میدان کے اندر اور باہر صنفی مساوات کی طرف بڑھنے والی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے ان کھیلوں کے اختتام کے بعد آنے والے کئی مہینوں میں مردوں کی بالادستی کی دنیا عورتوں کی صلاحیتوں اور ان کی قابلیتوں کو نئے سرے سے دیکھنے پر خود کو مجبور پائے گی۔ پیرس اولمپکس سے نکلنے والا برابری کا پیغام آخر کار بھرپور قوت کے ساتھ ہر گھر تک پہنچے گا۔
پیرس اولمپکس 2024 میں لڑکیوں اور عورتوں کی شرکت بڑھ کر 50 فیصد تک پہنچنے کے پیچھے عورتوں کی تحریک کی ایک سو سال کی جدوجہد میں شریک لاکھوں ایکٹیوسٹوں کی محنت اور خود کھیل میں تخلیقیت اور مہارتوں کے جوہروں سے مالا مال لاکھوں خواتین کی زندگی بھر کی جدوجہد شامل ہے۔ صرف 124 سال پہلے یہ ہی پیرس تھا، یہ ہی اولمپک گیمز تھین اور ان میں شریک خواتین کی تعداد صرف 2.2 فیصد تھی۔
پیرس تب بھی دنیا میں آزاد خیالی اور سماجی ترقی کے افکار کا مرکز تھا لیکن سوا سو سال پہلے یورپ، امریکہ اور باقی دنیا میں خواتین کو گھر میں کپڑے دھونے، کچن میں کھانے بنانے اور بچوں کو نہلانے دھلانے جیسی مہارتوں کے حصول کے لئے ہی مناسب خیال کیا جاتا تھا۔ نچلے طبقات میں البتہ انہیں کھیت مزدوری اور دیگر انواع کی مزدوریوں میں برابر کی شرکت کا نہ صرف اہل سمجھا جاتا تھا نلکہ ان کو یہ مزدوری مردوں کے برابر کرنے کے بعد گھر داری سے منسوب تمام مشقتیں بھی کرنا پڑتی تھیں۔ اشرافیہ میں عورتوں کو کھیل دیکھنے کی لگژری تو مل سکتی تھی لیکن خود کھیلنے کا تصور کرنا ہپی محال تھا کہ سوا صدی پہلے کے اشرافیہ اسے جگ ہنسائی کا سبب سمجھتے تھے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ یو این وومن کا پیرس اولمپکس مین عورتوں کی مساوی شرکت پر تبصرہ
کھیل بدل رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار، پیرس 2024 اولمپک اور پیرا اولمپک گیمز میں مردوں اور عورتوں کی مساوی تعداد میں حصہ لیا جا رہا ہے۔ ایتھلیٹس کی یہ 50:50 نمائندگی پیرس سمر گیمز کو صنفی مساوات( جینڈرز کی برابری) تک پہنچنے والے پہلے لیڈر بناتی ہے۔
ترقی یہیں نہیں رکتی۔ 3 بلین کے متوقع عالمی سامعین کے ساتھ، اس سال کے اولمپک گیمز کو سوچ سمھ کر، تمام ایتھلیٹس کو اسپاٹ لائٹ میں رکھتے ہوئے، تمام ایونٹس کی زیادہ متوازن کوریج کو ممکن بنانے کے لیے شیڈول کیا گیا ہے۔ گیمز میں خواتین کے باہمی مقابلےاور مخلوط مقابلے بھی ہوں گے، جو خواتین کو تمغے جیتنے کے مزید مواقع فراہم کریں گے۔