سٹی42: ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی آرمی کے سربراہ جنرل وقار الزماں نے کہا ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کے بعداب ملک میں عبوری حکومت بنائی جائے گی۔
جنرل وقار الزماں نے آج پیر کے روز تھوڑی دیر پہلے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں امن واپس لائیں گے، شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب عبوری حکومت کےقیام کےلیے بات چیت جاری ہے اور اس حوالے سے عوامی لیگ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہوئی ہے۔
جنرل وقار الزماں نے کہا کہ ملک میں کرفیو یا ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں، آج رات تک مسائل کا حل تلاش کرلیں گے۔
انہوں نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد مظاہروں سے دور رہیں طلبہ پرامن رہیں اور اپنے گھروں کو واپس جائیں، میں یقین دلاتا ہوں مظاہروں کے دوران ہوئی ہلاکتوں کی تحقیقات کریں گے۔
بنگلہ دیش میں میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہروں کے دوران پولیس سے تصادم میں ڈھائی سو کے لگ بھگ افراد فراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر حسینہ واجد کی مخالف سیاسی جماعتوں کے زیر اثر سٹوڈنٹس نے کچھ روز کے وقفہ کے بعد ہی اپنے ساتھیوں کے لئے انصاف کے نام پر سول نافرمانی تحریک شروع کر دی جس کا آج دوسرا دن تھا کہ حسینہ واجد نے فوج کے دباؤ پر استعفیٰ دے دیا اور ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئیں۔آج وزیراعظم حسینہ واجد کے مخالف سٹوڈنٹس نے ڈھاکا کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔
حسینہ واجد کا سیاسی کیرئیر
شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ سیاست دان ہیں جنہوں نے جون 1996 سے جولائی 2001 تک اور بعد میں جنوری 2009 سے 5 اگست 2024 تک بنگلہ دیش کی دسویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ حسینہ واجد مجموعی طور پر 20 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی سیاستدان ہیں۔ آج 5 اگست 2024 کو اپوزیشن سٹوڈنٹس کے پر تشدد احتجاج کے دوران عہدہ چھوڑنے سے پہلے، وہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خاتون سربراہ تھیں۔
حسینہ واجد کے اقتدار کا طلوع
شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں فوج کے ڈکٹیٹر جنرل حسین محمد ارشاد کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ اس احتجاج مین سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الرحمان کی بیوہ خالدہ ضیا بھی ان کے ساتھ شامل تھیں۔ جنرل حسین ارشاد نے احتجاج کے بڑھنے پر الیکشن کروانے کا اعلان تو کر دیا لیکن اس الیکشن مین فون کے خالدہ ضیا کی مدد کی اور جیسے ہی حسین محمد ارشاد کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا، عوامی لیگ کی رہنما حسینہ 1991 کے الیکشن میں خالدہ ضیاء سے ہار گئیں، جن کے ساتھ انہوں نے ارشاد کے خلاف تعاون کیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد نے حزب اختلاف کی رہنما کے طور پر، خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا، جس کے بعد پرتشدد مظاہرے اور سیاسی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ مسلسل احتجاج کے بعد خالدہ ضیاء نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد حسینہ واجد ہ جون 1996 کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بنیں۔
معاشی ترقی اور ایکسپورٹ انڈسٹری کا آغاز
حسینہ واجد کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران پسماندگی اور غربت کے سمندر مین غوطے کھاتے بنگلہ دیش نے معاشی ترقی اور غربت میں کمی کا تجربہ کرنا شروع کیا، وہ اپنی پہلی مدت کے دوران سیاسی ہنگامہ خیزی کا شکار رہیں، جو جولائی 2001 میں ضیاء کی انتخابی شکست کے بعد ختم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے ایک آزاد ملک بننے کے بعد سے یہ ایک بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی پہلی مکمل پانچ سالہ مدت تھی۔
2006-2008 کے سیاسی بحران کے دوران، حسینہ کو بھتہ خوری کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد اسنہوں نے 2008 کا الیکشن جیتا تھا۔ 2014 میں، وہ ایک ایسے الیکشن میں تیسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئیں جس کا بی این پی نے بائیکاٹ کیا تھا اور بین الاقوامی مبصرین نے اس پر تنقید کی تھی۔ 2017 میں، تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے میانمار میں نسل کشی سے بھاگ کر ملک میں داخل ہونے کے بعد، حسینہ کو ان کو پناہ دینے اور مدد فراہم کرنے کا کریڈٹ اور تعریف ملی۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات کے بعد چوتھی مدت میں کامیابی حاصل کی، جس پر تشدد ہوا اور دھاندلی کے طور پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔
جمہوری آزادیاں اور حسینہ واجد
حسینہ واجد پر ان کی ہر حکومت میں جمہوری آزادیوں کو کم کرنے کا الزام لگا۔ ہیومن رائٹس واچ نے ان کی حکومت کے تحت بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کو دستاویزی شکل دی۔ بہت سے سیاست دانوں اور صحافیوں کو اس کے خیالات کو چیلنج کرنے پر منظم اور عدالتی طور پر سزا دی گئی ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2014 سے بنگلہ دیش میں پریس کی آزادی کو روکنے کے لیے حسینہ کی میڈیا پالیسی کا منفی جائزہ لیا۔ حسینہ 2018 میں ٹائم کی دنیا کی 100 بااثر ترین شخصیات میں شامل تھیں اور 2015، 2018 اور 2022 میں فوربس میگزین کے مطابق دنیا کی 100 طاقتور ترین خواتین میں شامل تھیں۔