بنگلہ دیش میں انقلاب، حسینہ واجد بھارت فرار، پرائم منسٹر ہاؤس میں سٹوڈنٹس کا قبضہ

5 Aug, 2024 | 03:19 PM

سٹی42:  بنگلہ دیش میں مسلسل احتجاجی مظاہروں اور احتجاج کرنے والوں کی بڑے پیمانہ پر ہلاکتوں کے بعد وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے استعفیٰ دے دیا۔ آخری خبروں کے مطابق اس وقت ہزاروں مظاہرین وزیراعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہوگئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کی پالیسی کے خلاف  ایک ماہ سے احتجاج جاری ہے۔   سکیورٹی اداروں نے پہلے روز سے ہی اس احتجاج کو طاقت کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی جبکہ احتجاج میں شریک اپوزیشن پارٹیوں کے کارکن اور نوجوان بھی ابتدا سے ہی تشدد پر مائل رہے۔ ان احتجاجی مظاہروں نے عملاً فسادات کی شکلا اختیار کر لی ہے۔ اتوار کے روز بھی سٹوڈنٹس کے احتجاجی مظاہروں کے دوران مزید ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جس کے بعد آج وزیراعظم حسینہ واجد کا استعفیٰ آ گیا۔ معلوم ہوا ہے کہی حسینہ واجہ ڈھالہ سے بھارت چلی گئی ہیں۔ 

بھارت میں  بنگلہ دیش کے  ہائی کمیشن نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفا دینے کی تصدیق کردی ہے۔ 

فوج کی مداخلت، 45 منٹ کی مہلت

ایک مؤقر غیر ملکی خبر ایجنسی نے بتایا ہے کہ تشدد کو روکنے میں ناکامی کے بعد بنگلہ دیش کی فوج نے اس بحران مین مداخلت کی ہے اور  آج بنگلہ دیش کی فوج کی جانب سے  فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ 

خبر ایجنسی کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش کی آرمی کے  چیف  جنرل وقار الزمان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کر رہے ہیں،  آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی اس وقت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سمیت بڑی سیاسی جماعتوں سے بات چیت جاری ہے۔ 

گزشتہ روز فوجی اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے بنگلادیش کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وقار الزماں نے کہا تھا کہ فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور اب بھی کھڑی رہے گی۔

اس سے پہلے بھارتی میڈیا نے یہ خبر بریک کی تھی کہ حسینہ واجد بھارت روانہ ہوگئی ہیں جہاں سے وہ فن لینڈ جائیں گی۔  
خبر ایجنسی کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے محفوظ مقام پر منتقلی سے قبل عوام کے لئے اپنا خطاب ریکارڈکروانے کی کوشش کی مگر  فوجی اہلکاروں نے انہیں یہ خطاب ریکارڈ کرانے کا موقع نہیں دیا۔



بنگلہ دیش میں احتجاج  کیوں شروع ہوا؟
بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے  کی پالیسی ختم کروانے کے لئے  گزشتہ ماہ کئی روز تک  سٹوڈنٹس کے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کوٹہ پالیسی کو  منسوخ کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی۔

کل ان کی سول نافرمانی کا پہلا دن تھا جس میں احتجاج کے دوران سویلین سکیورٹی اداروں کے ساتھ تصادم میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ 
  

پرتشدد احتجاج میں 300 ہلاکتیں
بنگلہ دیش میں  ملازمتوں کے کوٹہ کے  مخالف سٹوڈنٹس کی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں  ہلاکتوں کی تعداد 300 تک  بتائی جا رہی ہے۔ کل شروع پہونے والی سول نافرمانی کی کال کو آگے بڑھاتے ہوئے سٹوڈنٹس نے آج دارالحکومت ڈھاکہ کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔

 آخری خبروں کے مطابق اس وقت ہزاروں مظاہرین وزیراعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہوگئے  ہیں۔

نئی جمہوریت کا آغاز!

بعد ازاں آنے والی خبروں  کے مطابق بنگلہ دیش کی آرمی کے سربراہ جنرل قمر الزماں نے قوم سے خطاب کیا اور بتایا کہ ملک مین آمریت نہیں آئے گی نہ ایمرجنسی لگائی جائے گی، عبوری حکومت کچھ دیر مین تشکیل پا جائے گی اور نئے جمہوری دور کا آغاز ہو گا۔

سینہ واجد کا سیاسی کیرئیر

شیخ حسینہ واجد   بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ  سیاست دان ہیں جنہوں نے جون 1996 سے جولائی 2001 تک اور بعد میں جنوری 2009 سے 5 اگست 2024 تک بنگلہ دیش کی دسویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ   بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ حسینہ واجد مجموعی طور پر 20 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد،   بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی سیاستدان  ہیں۔ آج 5 اگست 2024  کو اپوزیشن سٹوڈنٹس کے پر تشدد احتجاج کے دوران  عہدہ چھوڑنے سے پہلے، وہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خاتون سربراہ تھیں۔  

 شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جب کہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔

حسینہ واجد کے اقتدار کا طلوع

شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں فوج کے ڈکٹیٹر جنرل حسین محمد ارشاد کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ اس احتجاج مین سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الرحمان کی بیوہ خالدہ ضیا بھی ان کے ساتھ شامل تھیں۔ جنرل حسین ارشاد نے احتجاج کے بڑھنے پر الیکشن کروانے کا اعلان تو کر دیا لیکن اس الیکشن مین فون کے خالدہ ضیا کی مدد کی اور  جیسے ہی حسین محمد ارشاد کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہوا، عوامی لیگ  کی رہنما حسینہ 1991 کے الیکشن میں خالدہ ضیاء سے ہار گئیں، جن کے ساتھ انہوں نے ارشاد کے خلاف تعاون کیا تھا۔

شیخ حسینہ واجد نے  حزب اختلاف کی رہنما کے طور پر، خالدہ  ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا، جس کے بعد پرتشدد مظاہرے اور سیاسی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ مسلسل احتجاج کے بعد خالدہ ضیاء نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد حسینہ واجد ہ جون 1996 کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم بنیں۔

 

معاشی ترقی اور ایکسپورٹ انڈسٹری کا آغاز

حسینہ واجد کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران پسماندگی اور غربت کے سمندر مین غوطے کھاتے بنگلہ دیش نے معاشی ترقی اور غربت میں کمی کا تجربہ کرنا شروع کیا، وہ اپنی پہلی مدت کے دوران سیاسی ہنگامہ خیزی کا شکار رہیں، جو جولائی 2001 میں ضیاء کی انتخابی شکست کے بعد ختم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے ایک آزاد ملک بننے کے بعد سے یہ ایک بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی پہلی مکمل پانچ سالہ مدت تھی۔

حسینہ واجد کےہر دور اقتدار مین ان کو یورپی، امریکی اور بھارتی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی، ان کے اثر و رسوخ کے سبب بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس کو یورپ میں خصوصی رعایات ملیں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی ان کی حکومتوں کے دوران بنگلہ دیش کی مدد کی اور بنگلہ دیش مین بتدریج ایکسپورٹ انڈسٹری ابھرنے لگی جس کی بنیاد بنگالیوں کی نفیس کپڑا بننے کی  قدیم  مہارت اور جدید ترین مشینری پر رکھی گئی۔ اس انڈسٹری میں بنگلہ دیش کی عورتوں کو بھی کام کرنے کے بڑے پیمانے پر مواقع ملے جس کے نتیجہ میں صنفی مساوات اور خواتین کی عمومی ترقی کے راستے کھلئے، اس کے ساتھ بنگلہ دیش مین چھوٹے پکاروباروں کی مدد  کی مستقل پالیسیاں چلائی گئیں جس نے نئی مڈل کلاس کی تشکیل مین اہم کردار ادا کیا۔ 

2006-2008 کے سیاسی بحران کے دوران، حسینہ کو بھتہ خوری کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد اسنہوں نے 2008 کا الیکشن جیتا تھا۔ 2014 میں، وہ ایک ایسے الیکشن میں تیسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئیں جس کا بی این پی نے بائیکاٹ کیا تھا اور بین الاقوامی مبصرین نے اس پر تنقید کی تھی۔ 2017 میں، تقریباً 10 لاکھ روہنگیا  مسلمانوں کے میانمار میں نسل کشی سے بھاگ کر ملک میں داخل ہونے کے بعد، حسینہ کو ان کو پناہ دینے اور مدد فراہم کرنے کا کریڈٹ اور تعریف ملی۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات کے بعد چوتھی مدت میں کامیابی حاصل کی، جس پر تشدد ہوا اور دھاندلی کے طور پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔

جمہوری آزادیاں اور حسینہ واجد
حسینہ واجد پر ان کی ہر حکومت میں جمہوری آزادیوں کو کم کرنے کا الزام لگا۔   ہیومن رائٹس واچ نے ان کی حکومت کے تحت بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کو دستاویزی شکل دی۔ بہت سے سیاست دانوں اور صحافیوں کو اس کے خیالات کو چیلنج کرنے پر منظم اور عدالتی طور پر سزا دی گئی ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2014 سے بنگلہ دیش میں پریس کی آزادی کو روکنے کے لیے حسینہ کی میڈیا پالیسی کا منفی جائزہ لیا۔ حسینہ 2018 میں ٹائم کی دنیا کی 100 بااثر ترین شخصیات میں شامل تھیں اور 2015،  2018 اور 2022 میں فوربس میگزین کے  مطابق  دنیا کی 100 طاقتور ترین خواتین میں شامل تھیں۔

مزیدخبریں