پیرس اولمپکس میں خواتین کے ایک باکسنگ میچ نےدنیا میں جینڈر کے تصورات کے متعلق ایک بار پھر طوفان برپا کر دیا ہے۔اس طوفان میں تنقید اور نفرت کا نشانہ بننے والی الجیریا کی خاتون باکسر ایمان الخلیف ہیں جنہیں بعض لوگ خاتون ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ ان لوگوں مین امریکہ کا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہے، ہیر پوٹر ناول کی مصنفہ جے کے رولنگ بھی اور سوشل پلیٹ فارم ایکس کا مالک ایلون مسک بھی۔
اس خاتون کا جرم محض یہ ہے کہ یکم اگست 2024 کو اولمپک گیمز پیرس 2024 کے چھٹے دن خواتین کے 66 کلو گرام کے ابتدائی راؤنڈ میچ کے دوران ٹیم الجیریا کی ایمانی خلیف اور ٹیم اٹلی کی انجیلا کیرینی نکا میچ ہوا تو ایمان کی ماقابل اٹالین باکسر کیرینی نے 46 سیکنڈ بعد ہی مقابلہ سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ ایمان یہ میچ تو جیت گئیں لیکن اس کے فوراً بعد اس میچ کو لے کر ان پر سوشل میڈیا میں تنقید کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس میں ٹرانس فوبیا کے لاتعداد مریض بھی کود پڑے اور اس بحث کو ٹرانس جینڈر کے خلاف جنگ بنا ڈالا۔
الجزائر کی باکسر ایمانی خلیف نے تو اپنی معمولی مردانہ شباہت اور مکے کی کچھ زیادہ طاقت کی بنا پر سوشل میڈیا پر ٹرانس فوبک بدسلوکی کے زہریلے طوفان کا سامنا کیا ہی اس کے ساتھ اولمپک گیمز کو ٹرانس جینڈر اور انٹرسیکس ایتھلیٹس پر تلخ اور غلط معلومات سے بھرپور بحث میں گھسیٹ لیا۔
اس بحث میں ایک افسوسناک کردار باکسنگ کی ایک عالمی تنظیم انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن کا بھی سامنے آیا جس نے ایمان خلیف کو پہلے اپنے مقابلوں مین شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر رکھا تھا اور پیرس اولمکپس کے باکسنگ ایونٹ مین ایمان اور ایک دوسری باکسر کا نام سامنے آنے پر اس تنظیم آئی بی اے نے ایک زہر میں بجھا ہوا بیان داغ دیا جس میں کہا گیا کہ وہ مختلف جینڈرز کے باکسنگ میچوں کی مخالف ہے۔ اس بیان میں براہ راست ایمان خلیف اور ایک دوسری باکسر کو "مرد" قرار دیا گیا حالانکہ وہ دونوں کود کو مرد کی حیثیت سے شناخت نہیں کرتیں۔
یہ تنازعہ کیوں اہمیت رکھتا ہے
انسانی حیاتیات پیچیدہ ہے، اور ٹرانس جینڈر کے حامی طویل عرصہ سے انتباہ کرتے آ رہے تھے کہ ٹرانس فوبیا اور آن لائن غلط معلومات کا ایک مسلسل سلسلہ ان مردوں اور عورتوں کو بھی نقصان پہنچائے گا جو شناخت کے بارے میں سمجھے جانے والے معاشرتی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔
ایمان خلیف ٹرانس جینڈر نہیں ہے، وہ پیرس میں مقابلہ کرنے والے ان دو باکسروں میں سے ایک ہے جن پر پہلے IBA - ایک باکسنگ گورننگ باڈی جس کو بین الاقوامی اولمپک کمیٹی تسلیم نہیں کرتی، نے اپنے مقابلوں مین شریک ہونے پر پابندی لگا دی تھی۔ آئی بی اے نے زور دیا کہ خلیف صنفی جانچ میں ناکام رہی ہیں۔
IBA نے کوئی تفصیلات پیش نہیں کیں، اور عوامی طور پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جس سے یہ تجویز کیا جا سکے کہ خلیف ٹرانسجینڈر یا انٹر سیکس ہیں۔ تاہم، کچھ خواتین میں قدرتی طور پر ٹیسٹوسٹیرون کی سطح زیادہ ہوتی ہے اور ان میں مردوں جیسی شباہت کی جھلک نظر آتی ہے حالانکہ وہ عورت ہی ہوتی ہیں۔
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی جو پیرس 2024 باکسنگ مقابلہ چلا رہی ہے، اس کے پاس انٹرسیکس باکسرز یا مخصوص ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو لازمی قرار دینے کا کوئی خاص اصول نہیں ہے۔
آن لائن غلط معلومات کئی پیچیدہ مسائل کو اکٹھا کرتی ہیں
آئی او سی نے خلیف اور لین یو ٹنگ دونوں کو، جن پر آئی بی اے کی طرف سے بھی پابندی عائد کی گئی تھی، کو پیرس اولمپکس میں حصہ لینے کی اجازت دی۔
IBA نے ان کی شمولیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ "کبھی بھی مختلف جیندرز کے درمیان باکسنگ کے کسی مقابلے کی حمایت نہیں کرے گا"، جس کا مطلب یہ ہے کہ خلیف اور لین بغیر کسی ثبوت کے حیاتیاتی طور پر مرد ہیں۔
ایمان خلیف سے ہارنے والی باکسر کی پوزیشن
ایمان خلیف سے ہارنے والی اطالوی باکسر انجیلا کیرینی کے ساتھ خلیف کے مقابلے نے ایک طرف تو ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کے دیگر مشہور ریپبلکنز کے ساتھ ساتھ جے کے جیسی مشہور شخصیات کی طرف سے آن لائن حملوں کو راغب کیا۔ (رولنگ اور ایلون مسک، دونوں ہی ٹرانسجینڈر مخالف وسیع بیانات پوسٹ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔) دوسری طرف بہت سے لوگوں کو ایمان خلیف کی حمایت کرنے پر بھی اکسایا جن مین ان سے شکست کھانے والی اٹالین باکسر کیرینی بھی شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، کیرینی نے کہا کہ وہ باؤٹ کے اختتام پر ہاتھ ملانے میں ناکام رہنے پر خلیف سے معافی مانگنا چاہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے مخالف کے لیے بھی افسوس ہے۔ اگر آئی او سی نے کہا کہ وہ لڑ سکتی ہے تو میں اس فیصلے کا احترام کرتی ہوں۔
وہ کیا کہہ رہے ہیں: اولمپک رگبی پلیئر ایلونا مہر ، جو ٹرانسجینڈر نہیں ہے لیکن اس نے اپنی صنفی شباہت پر وسیع حملے برداشت کیے ہیں، نے اپنے TikTok اکاؤنٹ کو اولمپکس میں تمام جسمانی اقسام کے لیے مثبتیت کا پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے۔
مہر نے ٹائم میگزین کو بتایا، "مجھے مرد کہلانے، بہت زیادہ مردانہ کہلانے کے تبصرے آتے ہیں۔" "میں جانتا ہوں کہ یہ مواد آن لائن بہت اداس، غیر محفوظ لوگوں کی طرف سے آتا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ دوسری لڑکیوں سے بھی یہ کہہ رہے ہیں۔ اور مجھے یہ پسند نہیں ہے۔"
ایمی براڈہرسٹ، جس نے 2022 میں ایمان خلیف کو شکست دی تھی، انہوں نے بھی X پر ب ایمان کے لیے اپنی حمایت پوسٹ کی۔ انہوں نے لکھا، "ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ اس نے 'دھوکہ دینے' کے لیے کچھ کیا ہے،" خلیف کا جسم "جس طرح سے وہ پیدا ہوا تھا اور یہ اس کے قابو سے باہر ہے۔"
انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کی پوزیشن
IOC اور پیرس 2024 پیرس باکسنگ یونٹ نے فوری طور پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں خلیف اور لن کی اہلیت کا دفاع کیا گیا۔
انہوں نے کہا، "اولمپک گیمز پیرس 2024 کے باکسنگ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑی مقابلے کی اہلیت اور داخلے کے ضوابط کے ساتھ ساتھ پیرس 2024 کے باکسنگ یونٹ کے مقرر کردہ تمام قابل اطلاق طبی ضوابط کی تعمیل کرتے ہیں۔" "پچھلے اولمپک باکسنگ مقابلوں کی طرح، کھلاڑیوں کی جنس اور عمر ان کے پاسپورٹ پر مبنی ہوتی ہے۔"
خلیف نے اس سے قبل بغیر کسی واقعے کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لیا تھا، جس میں طلائی تمغہ جیتنے والی آئرلینڈ کی کیلی ہیرنگٹن سے ہار گئی۔
حقیقی ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں کی پیرس اولمپکس میں موجودگی
ایمان تو ٹرانس جیندر نہ ہونے کے باوجود تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہیں لیکن دوسری طرف حقیقتاً ٹرانسجینڈر اور نان بائنری کھلاڑی پیرس گیمز میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔
خواتین کے باکسنگ مقابلے میں فلپائن کی ہرگی باکیڈان بھی شامل ہیں — جنہیں پیدائش کے وقت خاتون کا درجہ دیا گیا تھا لیکن اب وہ خود کو مرد کے طور پر شناخت کرتی ہیں۔وہ بدھ کو اپنا میچ ہار گئے لیکن اولمپکس میں حصہ لینے والے پہلے کھلے عام ٹرانس جینڈر مرد کے طور پر اپنا نام تاریخمین لکھ گئے۔
پیرس اولمپکس مین کم از کم دو ٹرانس جینڈر اور نان بائنری ایتھلیٹس بھی کھیل رہے ہیں - جن کو پیدائش کے وقت خواتین کی جینڈر تفویض کی گئی - وہ دوسرے اولمپک کھیلوں کے خواتین کے ڈویژن میں شریک ہیں - کینیڈا کی گولڈ میڈل جیتنے والی فٹ بال کھلاڑی کوئن اور امریکی رنر نکی ہلٹز ان میں شامل ہیں۔
اور پھر خواتین ایتھلیٹس کا ایک اور گروپ ہے، جس میں مہر بھی شامل ہے، جن کی ظاہری شکل بہت زیادہ مردانہ ہے اور جن کو شباہت کی بنا پر ٹرانس فوبک بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان پر خفیہ طور پر مرد ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے، ایسا الزام شاذ و نادر ہی اتھلیٹ خواتین کھلاڑیوں کے خلاف نہیں لگایا جاتا۔