وقاص عظیم: بجلی فروخت کرنے والی کمپنیاں صنعتوں سے ہر سال 225 ارب روپے کے اضافی بجلی بل وصول کر رہی ہیں۔ حکومت نے صنعتوں سے کراس سبسڈی ختم کرنے پر غور کرنا شروع کر دیا۔
پروٹیکڈ صارفین کو سماجی تحفظ کے پروگرام کےذریعے سبسڈی دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اضافی بجلی بلز کے باعث ملک کی صنعتوں کی کاسٹ آف پروڈکشن بڑھتہی ہے اور اس مستقل مسئلہ کے سبب برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔
بجلی کے بل پہلے ہی دوسرے ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی نسبت کچھ زیادہ ہیں جبکہ وصولی طے شدی ٹیرفس سے بھی زیادہ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کی کاسٹ آف پروڈکشن مین انرجی کاسٹ کا شئیر ہمیشہ بڑھا رہتا ہے۔بجلی کی طے شدہ ٹریفس سے زیادہ بلز کی وصولی کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل پر ڈسکوز میں ایک غیر اعلانیہ پالیسی کی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ڈسکوز اپنے لائن لاسز اور ریوینیو کلیکشن کے فگرز کو مینیج کر کے مطلوبہ شکل میں النے کے لئے انڈسٹریل کنکشنز پر اندھا دھند اوور بلنگ کرتی جاتی ہیں۔ اس غیر اعلانیہ غیر منصفانہ پالیسی سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی وزیر پاور اویس لغاری صنعتوں سےاضافی بجلی بلز وصولی کی پالیسی سےناخوش ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پروٹیکٹڈ کنزیومرز کو دی جانے والی سبسڈی کا تمام بوجھ بھی انڈسٹریل کنزیومرز پر ڈالا جا رہا ہے۔ صنعتیں پروٹیکٹیڈصارفین کو سوا دوسوارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہیں،
ذرائع نے بتایا کہ صنعتیں بجلی کی اصل قیمت سے زیادہ بلز ادا کر رہی ہیں، ان اضافی بجلی بلز نے پاکستان کی انڈسٹری کو دنیا میں مسابقت کے قابل نہیں چھوڑا۔