ویب ڈیسک: ڈالر کی طرح بجلی بھی بے لگام ہوگئی، گھریلو صارف کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت 57 روپے 80 پیسے تک پہنچ گئی۔
بجلی مہنگیہونے پر شہری احتجاجاً دوکانوں اور بازارں کو تالے تک لگا چکے ہیں لیکن بجلی کی قیمت بڑھنے کا سلسلہ تھم نہیں پا رہا۔ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کے بل دیں یا کھانا پینا اور دیگر ضروریات زندگی پوری کریں۔ اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی اوسط قیمت بڑھتے بڑھتے 42 روپے ہو چکی ہے جبکہ گھریلو صارف کوایک یونٹ کی قیمت 57 روپے 80 پیسے اور کمرشل صارف کو 63 روپے 98 پیسے تک بھی دینا پڑ رہی ہے۔
ٹیکنیکل پیچیدگیوں سے قطع نظر یہ بات عام آدمی کے لئے تکلیف دہ ہے کہ بجلی بنانے والی کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، ان کی پیداواری صلاحیت کے حساب سے ان کو ادائیگیاں عوام کی جیب سے کی جا رہی ہیں۔ صارفین ایک دوسرے سے یہ پوچھتے پائے جا رہے ہیں کہ جو بجلی کسی نے بنائی نہیں، کسی نے خریدی نے وہ قابل فروخت ایمٹٹی کیسے ہو گئی، اس نام نہاد کیپیسٹی کی ادائیگی کس طرح قانوناً اور اخلاقاً جائز ہو گئی۔
واضح رہے کہ بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ عذر پیش کرنے کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ 30 جون 2023 تک ایک سال میں آئی پی پیز کو کیپیسٹی پے منٹس کی مد میں 1300ارب روپے ادا کئے گئے اور مستقبل میں بھی اس ناقابل فہم ادائیگی کی شرح اتنی ہی رہے گی۔ ایسی بجلی جو مینوفیکچر نے بنائی نہ صارف نے استعمال ہی کی۔ اس کابالآخر بوجھ بھی صارف پر پڑا۔
رواں مالی سال جون 2024 تک کیپیسٹی پیمنٹس 2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرنے کا تخمینہ ہے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز بھی ایک بڑا مسئلہ ہے یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی ۔ 520 ارب روپے سالانہ، چوری اور اور لائن لاسز 17فیصد سے زائد ہیں اور اس مد میں صرف ایک فیصد 30 ارب روپے بنتا ہے۔
رواں مالی سال تو بجلی چوری اور لائن لاسز تقریبا 700 ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ یہ بوجھ بھی انہیں صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے جو بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔
نادہندگان بھی ایک بڑی وجہ ہیں، نادہندگان کی طرف بقایا جات جون 2022 تک 1498 ارب روپے تھے اور اب تک 2000 ارب روپے سے زائد ہونے کا تخمینہ ہے۔
صرف مالی سال 2021-22 میں 10 بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین کو 2423 ارب 29 کروڑ روپے کے بل بھیجے جس کے بدلے 2193 ارب 37 کروڑ روپے وصول ہوئے، باقی 230ارب روپے ڈیفالٹرز کی تجوریوں میں گم ہو گئے۔ بجلی کی بنانے والی اورر تقسیم کار کمپنیوں کا گردشی قرضہ جون 2023 تک 2310 ارب روپے تھا ، رواں مالی سال اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ درآمدی کوئلے اور تیل سے بننے والی بجلی ڈالر مہنگا ہونے سے بھی مہنگی ہو رہی ہے۔