خاور نعیم ہاشمی
وہ 16اکتوبردو ہزار تیرہ کو عید والے دن ڈیفنس کے علاقے میں بہت بہیمانہ طریقے سے قتل ہو گیا تھا۔ مبین ملک اپنی مطلقہ بیوی انجمن کے گھر بچوں سے عیدی ملنے گیاتھا،انجمن ہی کے گھر میں قربانی کا فریضہ ادا کرکے وہ اپنی22 سالہ بیٹی کے ساتھ اس گھر میں واپس آرہاتھا جہاں وہ انجمن سے خلع کے بعد اپنے چھوٹے بھائی زری خان کے ساتھ رہ رہا تھا۔
دونوں گھروں میں فاصلہ سو گز کے قریب تھا، اسے اسی گھر کے دروازے پر آٹھ گولیاں ماری گئیں،گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر دروازہ کھولنے والا چوکیدار بھی گولیوں کی بوچھاڑ سے بھون دیا گیا، کار میں باپ کے ساتھ بیٹھی بیٹی شاید قاتلوں کا نشانہ نہ تھی، امان کو باپ کا جسم چیرکے آنے والی گولیاں لگی تھیں لیکن زندگی بچ گئی۔
1977 ء میں فلم لائن میں آنے والی انجمن کا تعلق ملتان سے ہے، مبین محکمہ انکم ٹیکس میں 21ویں گریڈ کا اعلیٰ افسر ہونے کے باوجود انجمن کے خاوند کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور یہ تعارف اسے اچھا بھی لگتا تھا، اسے سیاست کا بھی شوق رہا، پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی بہت تگ و دو کی،مگر دال نہ گلی۔قتل سے چھ سات مہینے پہلے وہ پگاڑہ لیگ میں شامل ہوگیا، وہ لاہور میں پگاڑہ لیگ کا عہدیدار بھی بنا تھا ۔مبین ملک کے والد فوج میں تھے، انہیں ستارہ جرأت ملا تھا، یہ فیملی لاہور آنے سے پہلے گجرات کے علاقے کنجاہ میں رہتی تھی، کنجاہ وہی علاقہ ہے جس کے بارے میں کئی کہاوتیں مشہور ہیں۔ اداکارہ آسیہ کے شادی کرکے ملک چھوڑ جانے کے بعد اس کی جگہ لی انجمن نے اور کئی برس وہ بڑی اسکرین کی ملکہ بنی رہی، سلطان راہی نے سب سے زیادہ فلمیں انجمن کے ساتھ کیں۔انجمن کے دونوں بھائی ناصر اور ارشد سر توڑ کوششیں کرتے رہے کہ’’باجی ‘‘واپس گھر آ جائے، اس حوالے سے بہت پلان بنے، کئی بار انجمن ان کے شکنجے میں بھی آئی، انہی سازشوں کے باعث دونوں میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے طول پکڑنے لگے،بات عدالتوں تک بھی پہنچی،ایک مقام ایسا آیا جب مبین ملک نے انجمن کو طلاق دینے کاحتمی فیصلہ کر لیا۔ اسی دوران انجمن کی چھوٹی بہن گوری نے بھی پاؤں پسارنے شروع کر دیے تھے۔اس نے سلطان راہی کا قرب حاصل کر لیا تھا،جس کے باعث اسے بطور ہیروئن کئی فلمیں بھی مل گئی تھیں لیکن وہ انجمن کا جادو توڑنے میں ناکام رہی تھی، منور انجم نے ایک دن انکشاف کیا کہ مبین ملک نے انجمن کو طلاق دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے،انجمن کے خاندان نے تھانے کچہریوں کے چکر لگوا لگوا کر اسے توڑ ڈالا تھا، خود انجمن بھی اب علیحدگی چاہتی تھی۔ایک رات جان شیر خان کی کال آئی، کہنے لگا کہ آج رات ایک پارٹی ہے، تم میرے ساتھ چلو۔
وہ مجھے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں لے گیا، شہر بھر کے تماش بین روساء وہاں نظر آئے، ڈھیروں پیسے لے کر رقص کرنے والیاں محفل کو روشن کئے ہوئے تھیں، میزبان کے سوا میرا یا جان شیر خان کا کوئی ذاتی دوست یا جاننے والا وہاں کوئی نہ تھا، لہذا ہم میزبان سے علیک سلیک کرکے آخری کرسیوں پر جا بیٹھے، ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک ایسا مہمان آیا کہ ساری محفل جھوم اٹھی، آنے والا مبین ملک تھا۔میں نے سوچا، چلو ایک جاننے والا تو آیا ، لیکن مبین ملک نے ہماری جانب دیکھا تک بھی نہیں، وہ درمیان میں رکھی گئی مہمان خصوصی کی کرسی پر براجمان ہوا، دو لڑکیاں اس کے قدموں میں بیٹھ گئیں،مبین کے جوتے اور جرابیں اتاریں اور اس کے پاؤں کے مساج میں مصروف ہو گئیں، وہ واقعی راجہ اندر دکھائی دے رہا تھا، اس کی اتنی آؤ بھگت کیوں؟
میں نہ سمجھ سکا۔جن دنوں میں لندن میں ملازمت کر رہا تھا، مبین انجمن کے ساتھ ایک بار میرے آفس بھی آیا تھا، سرو قد انجمن ان دنوں پورے شباب پر تھی، ایک دن مبین نے مجھے اپنے گھر نائٹ پارٹی میں بلوایا، میں تو ایک سازش کا شکار ہو کر اس کے گھر نہ پہنچ سکا لیکن یہ جان کر حیران ہوا کہ اس دعوت میں بہت سارے گورے ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے،اور یہ مقامی اہل سیاست انجمن کے ڈانسزکے گرویدہ تھے، میں نے سوچا،،انجمن کا شوہر ہو اور کاریگر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟16/اکتوبر2013. ء مبین ملک کی کثیر الجہتی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا، اس کے قتل کا فائدہ کس کس کو ہوا؟ کیاانجمن کو؟ جو کہتی ہے کہ خلع نہیں ہوا، انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ خلع نہ ہونے والی بات تو نہ جانے سچ ہے یا جھوٹ، ہاں رجوع والی بات غلط نہیں ہو سکتی۔۔ جائیداد کا جھگڑا تو مبین کا اپنے ماموؤں کے ساتھ بھی تھا۔پتہ نہیں مبین ملک کو کس نے مارا؟ کس نے مروایا؟مبین ملک پستول کی آٹھ گولیاں کھانے کے بعد دروازے پر شدید زخمی حالت میں بے یار و مددگار پڑا تھا،قاتلوں نے دو گولیاں آنکھ اور کنپٹی پر بھی ماری تھیں، بیٹی جسم میں دو گولیاں پیوست ہونے کے باوجود گھر کے اندر بھاگ گئی تھی، گھر کے باہر پڑے ہوئے مبین ملک کو اسپتال پہنچانے والا کوئی نہ تھا،جب تک 1122 والے مدد کو پہنچے وہ مر چکا تھا، اس کی لاش گھر کے قریب نیشنل اسپتال پہنچائی گئی، اس کے ساتھ مارے جانے والے گھر کے چوکیدار کی لاش پر تو کسی کی توجہ بھی نہ تھی۔نیشنل اسپتال سے ان دونوں کی لاشیں ڈیڈ ہاؤس پہنچائے جانے کا مرحلہ آیا تو ایمبولینس کو کرایہ دینے والا کوئی نہ تھا، پوسٹ مارٹم کے بعد مبین ملک کی لاش ڈیفنس اور چوکیدار کی لاش ساہیوال بھجوانے کا مرحلہ آیا تو بھی کسی نے جیب میں ہاتھ نہ ڈالا،مبین ملک کا ایک دیرینہ دوست اگر ان سب مراحل میں شامل نہ ہوتا تو اس کی لاش شاید ڈیڈ ہاؤس میں ہی پڑی رہتی اور پھر اسے لاوارث قرار دے کر پولیس کسی قبرستان کے گمنام گوشے میں پھینک آتی۔رسم قل والے دن مسجد میں صرف کالے چنے موجود تھے جو نجانے کس نے بھجوائے ہونگے؟ یہ سب اس شخص کی میت کے ساتھ ہو رہاتھا، جوسالہا سال تک انجمن اور زرین ملک کے گھروں کے اخراجات برداشت کرتا چلا آ یا تھا، جس نے کچھ ہی عرصہ پہلے بیٹے کو قیمتی کار خرید کر دی تھی، جس نے انجمن کے گھر میں اپنی بیٹی کے کمرے کی رینوویشن پر کئی لاکھ خرچ کئے تھے، جس نے انجمن اور اپنے بچوں کو برطانیہ میں عیش و آرام سے رکھا، اعلی تعلیم دلوائی۔قتل کے بعد مبین ملک کا پرس اور اس کا وہ بیگ جس میں اس کی جائیداد اور بنک اکاؤنٹس کی دستاویزات ہمیشہ موجود رہتی تھیں پر اسرار طور پر غائب تھا، اس کا بیٹا کہتا تھا کہ اسے صرف باپ کی گھڑی ملی، مبین ملک کا جنازہ تیسرے دن اٹھایا گیا، کیونکہ انجمن پہلے شوہر سے اپنے بیٹے شان کو بھی اس''دکھ '' میں شریک دیکھنا چاہتی تھی، انجمن نے تعزیت کے لئے آنے والے مبین ملک کے یار دوستوں سے اس کی لاش کے سرہانے وعدے بھی لئے کہ مبین کے ترکے سے اسے اس کا حق دلوایا جائے گا۔
وہ ہر آنے والے کو یہ یقین بھی دلاتی رہی کہ وہ ابھی تک مبین کی بیوی ہے، تیسرے دن مبین ملک کا جنازہ اٹھا تو انجمن خوب روئی، وہ جنازے کے ساتھ لپٹی بھی رہی، جنازے کے پیچھے بھاگی بھی،، جنازہ گھر سے تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ ایسا لگا جیسے کسی فلم کی شوٹنگ پیک اپ ہوچکی ہو ، شاید سب ایک دوسرے کو شاندار اداکاری پر مبارکیں دے رہے تھے۔ خاص طور پر انجمن کی پرفارمنس کو تو بہت ہی سراہا گیا تھا اس دن۔