جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں، جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ اسی فارمولے کی بنیاد پر کچھ نادیدہ قوتیں کام کرتی ہیں، ریاستی امور، نظام حکومت چلاتی ہیں، پاکستان کے ”معصوم لوگ“ ظاہری تبدیلیوں پر ہی ”ایمان“ لے آتے ہیں، کبھی کسی آمر کو اپنا مسیحا مان لیتے ہیں تو کبھی کسی جاگیر دار کو اپنے درد کا مداوا سمجھ لیتے ہیں، کبھی کسی ٹیکنو کریٹ کی بات پر کان دھرتے ہیں تو کبھی کسی کھلاڑی کے نعرے لگاتے لگاتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، تبدیلی کے اصل کرداروں کے بارے میں تو کبھی سوچتے ہی نہیں۔پی ٹی آئی کا احتجاج بظاہر تو عمران خان کی رہائی کیلئے ہے اور پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت بھی کچھ ایسے نعرے لگاتی نظر آتی ہے،اگر پورے منظر کو دیکھیں اور سابقہ احتجاج پر نظر ڈالیں تو دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔صرف دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری کی پوری دال ہی کالی ہے؟اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
پی ٹی آئی آج ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے جارہی ہے اور ریاست بھی ان کو روکنے کیلئے پورا بندوبست کرچکی ہے،راولپنڈی پولیس کے چار ہزار اہل کارذمہ داری سنبھال چکے ہیں ،موبائل سروس بند ہے اور پورا کا پورا شہر تہہ در تہہ کنٹینروں سے پیک کردیا گیا ہے۔اب پہلا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کو یہاں احتجاج کرنے کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں؟کیونکہ تحریک انصاف نے تو یہ ارادہ کرلیا ہے کہ وہ ہر صورت ریڈزون میں داخل ہوگی ،اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا تحریک انصاف ایک بار پھر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا چاہتی ہے ،تحریک انصاف اپنے ریاست مخالف بیانیے کی وجہ سے سیاسی سپیس کو خود اپنے لئے محدود کرتی چلی جارہی ہے۔اگر تحریک انصاف ڈی چوک میں جلسہ یا احتجاج کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اگر وہ یہاں کسی اور ارادے سے آتی ہے تو پھر سے سانحہ نو مئی جیسا واقعہ رونما ہوسکتا ہے،ناقدین تو تحریک انصاف پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہر صورت موجودہ چیف جسٹس کو ہٹانا چاہتی ہے اور اِس کیلئے وہ ہر حربہ استعمال کرسکتی ہے،پی ٹی آئی اگر کوئی ایسا ارادہ رکھتی ہے تو اس کے نتائج اچھے کے بجائے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اب ظاہر ہے تحریک انصاف نے 5 اکتوبر کو بھی مینار پاکستان میں احتجاج کی کال دی ہوئی ہے یعنی پی ٹی آئی پنجاب حکومت کو بھی للکار رہی ہے ۔اور اِس للکار کا جواب نواز شریف نے بھی دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ریاست اور ملک پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔پنجاب میں آنسو گیس کے شیل لے کر داخل ہوتے ہیں جیسا کہ قبضہ کرنے آئے ہوں ۔یہ اِن کا خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا ۔حکومت ریاستی مشنیری سے مل کر اپنا کام کررہی ہے،اس نے احتجاج کو ہر صورت روکنا ہے مگر ادھر تحریک انصاف تضادستان بن چکی ہے،اس جماعت میں مختلف گروپ ہیں اور ہر گروپ کی الگ ہی رائے ہے،یہ تمام گروپ علیحدہ علیحدہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرتے ہیں ،ان کو کسی بھی مسئلہ پر غلط یا صحیح گائیڈ کرتےہیں اور اپنی مرضی کا فیصلہ کرو الیتےہیں،کپتان میدانی صورتحال سے آشنا نہ ہونے کے باعث ویسا ہی فیصلہ کر لیتےہیں جیسا یہ گروپ چاہتےہیں لیکن جب یہ گروپ باہر آکر ان فیصلوں اعلان کرتے ہیں تو ووٹرز ،سپورٹرز میں اس حوالے سے اضطراب پایا جاتا ہے۔کیونکہ یہ گروپ ان لوگوں کی بھی نہ صرف پارٹی میں واپس لا رہے ہیں جنہوں نے نو مئی کے بعد خود کو پارٹی سے الگ کیا بلکہ اس واقعہ کی مذمت بھی کی ۔ لیکن اب سینیٹ الیکشن ہو یا ضمنی انتخابات ،مختلف مواقع پر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد کو ان کارکنان پر فوقیت دی جا رہی ہے جو ہر مشکل میں پارٹی کیساتھ کھڑے رہے۔
گزشتہ دنوں جب سینیٹ کے لیے تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا تو ان میں ایک نام مرزاآفریدی کا بھی شامل تھا۔یہ وہ مرزا آفریدی تھے جو سب سے پہلے 9 مئی کی مذمت کر کے پی ٹی آئی چھوڑنے والوں میں شامل تھے ،اب ان کو سینیٹ کی نشست سے نوازا جا رہا ہے،مرزاآفریدی سانحہ نو مئی کے بعد نہ صرف سینیٹ ٹکٹ کے لیے اپنا نام طے کروا چکےہیں بلکہ ان کی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ تصاویر بھی وائرل ہیں،اس کے علاوہ ضمنی انتخابات میں ٹکٹ کی جو فہرست جاری ہوئی اس میں بھی ایک ایسا نام تھا جس کو دیکھ کر تحریک انصاف کے کارکنوں میں بہت اضطراب پایا جا رہا تھا ۔یہ نام افضل ڈھانڈلہ کا تھا یوں تو اب ان کا ٹکٹ کے سخت ری ایکشن کے بعد کینسل کر دیا گیا ہے لیکن پہلے ان بھکر سے یہ ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔جس پر کارکنوں نے قائدین سے بھرپور احتجاج کیا اور ان کو تنقید کا نشانہ بنایا،حماد اظہر کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ سے ’پھڈا‘چل رہا ہے ،لاہور میں علی امین گنڈاپور کے پہنچنے سے پہلے’کاہنہ‘جلسے کو ختم کرنا بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی ،اب جب پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت اختلافات کا شکار ہے تو پھر حکومت کو کس بات کا خوف ہے؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں عمران خان کے فالوورز کی تعداد کسی بھی پاکستانی سیاسی لیڈر سے زیادہ ہے،ایسے ایسے فالورز موجود ہیں جو عمران خان سے جڑی کسی بھی چیز کو لاکھوں روپے میں خرید سکتے ہیں،عمران خان غلط کو بھی ٹھیک کہیں گے تو کارکن اس کو سچ مان کر اس کے پیچھے چل پڑیں گے،اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت ساری طاقتیں میدان میں آچکی ہیں،یہ طاقتیں عمران خان کے نام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں،یہ پروپیگنڈا کامیابی سے چل رہا ہے،اس وقت بھی وہی مہرے استعمال ہورہے ہیں جو عمران خان کو ’مہاتما‘بنانے کیلئے استعمال کیے گئے۔یہ مہرے جو کہتے ہیں عمران خان لورز اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔عمران خان کی سیاست ایک’فرقہ‘کی صورت اختیار کرچکی ہے،اس فرقہ کا وہ بھی حصہ بن چکے ہیں جو کالعدم ٹی ٹی پی کا حصہ رہے ۔ایسی صورتحال میں ریاست کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا کہ وہ کسی کو آزادی سے حملہ کرنے دے۔ریاستی مشنیری نے ہر صورت فساد کو روکنا ہوتا ہے اور وہ اس میں فی الحال کامیاب بھی نظر آتی ہے مگر اس ساری صورتحال میں نقصان جمہوریت کا ہورہا ہے،اس کلٹ کو ختم کرنے کیلئے ایسی آوازیں بھی دبائی جارہی ہیں جو ہمیشہ ملک کیلئے بلند ہوتی ہیں ۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر