ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بیوروکریسی میں برین ڈرین کا بڑھتا ہوا رحجان

بیوروکریسی میں برین ڈرین کا بڑھتا ہوا رحجان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) بیوروکریسی میں برین ڈرین اور سرکاری شعبہ کو خیر باد کہ کر نجی شعبہ میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے کا رجحان جاری ہے۔ مختلف افسران دوران سروس سرکاری نوکری چھوڑ کر نجی شعبہ میں لاکھوں روپے تنخواہ پر جانے کیلئے اپنا سرکاری اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں اور پھر جیسے ہی موقع ملتا ہے سرکاری نوکری سے رخصت لے کر نجی شعبہ یا کسی بین الاقوامی ادارے میں چلے جاتے ہیں، جہاں پر انہیں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے یا یو این او مشن میں کہیں کنسلٹینٹ لگ جاتے ہیں۔ اس رجحان سے حکومت ایک اچھے افسر سے محروم ہو جاتی ہے۔

 حکومت ان افسران کی ٹریننگ، کورسز اور فیلڈ اسائنمنٹ پر بے تحاشا خرچ کرتی ہے اور انہیں اس قابل کرتی ہے کہ یہ ایک بہترین منتظم بن سکیں اور جیسے ہی یہ افسران اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں یہ لوگ سروس سے چھٹی لیتے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر دیگر نجی ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں نوکری اختیار کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں سابق سپیشل سیکرٹری محکمہ خزانہ عثمان احمد چودھری، سابق سپیشل سیکرٹری محکمہ خزانہ سردار سیف اللہ ڈوگر اور سابق ڈی سی عمر جہانگیر نے ڈیفیڈ جوائن کی ہے، جہاں پر انہیں سرکاری ملازمت کی نسبت بہتر سہولتیں اور بہتر پے پیکیج ملا ہے۔ راشد محمود لنگڑیال سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود کے دور میں بھی ایک پراجیکٹ سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لیتے رہے ہیں اور اب وہ سرکاری نوکری کرنے کی بجائے راوی ریور اتھارٹی جوائن کر رہے ہیں، جہاں پر اِن کا ماہانہ پے پیکیج بھی لاکھوں میں ہی یقینی ہوگا۔

 ڈی ایم جی افسر راشد محمود لنگڑیال کو جب بھی موقع ملتا ہے ، وہ سرکاری نوکری سے ڈیپوٹیشن پر یا چھٹی لے کر بہتر پے پیکیج کی نوکری پر چلے جاتے ہیں۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے وفاقی سیکرٹری داخلہ کی نوکری چھوڑکر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور چار سال کیلئے صوبائی محتسب پنجاب لگ گئے، جہاں پر ان کا ماہانہ پے پیکیج لاکھوں میں ہے۔ سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود بھی وفاقی سیکرٹری کی نوکری چھوڑ کر سیاست میں چلے گئے۔ آج کل وہ قصور میں الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں۔

ماضی میں فارق لغاری اور خالد کھرل نے سرکاری سول سروس چھوڑ کر سیاست کا شعبہ اختیار کیا۔ ڈاکٹرامجد ثاقب نے سول سروس چھوڑ کر اپنی ایک این جی اوچلا رہے ہیں۔ زبیر بھٹی نے ڈی سی جھنگ کی جاب چھوڑ کر وہ ورلڈ بینک میں چلے گئے۔ جہاں پر انہیں بہتر مستقبل ملا اور ڈالروں میں تنخواہ لے رہے ہیں ۔ سابق سیکرٹری زراعت رانا نسیم احمد نے سول سروس کو چھوڑ کر جہانگیر ترین کے ساتھ نتھی ہو گئے اور ان کا بزنس سنبھال لیا اور لاکھوں روپے تنخواہ لی۔ وفاق وزیر شفقت محمودنے بھی سول سروس کو چھوڑا ہوا ہے اور وہ آج کل وفاقی وزیر ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے بھی دوران سروس ہی سول سروس کو چھوڑا ہوا ہے۔

 ڈی ایم جی افسر علی طاہر بھی چھٹی لے کر بیرون ملک بہتر پے پیکیج پر نوکری کرتے رہے ہیں اور آج کل وہ واپس پنجاب حکومت جوائن کر چکے ہیں۔ سول سروس میں مڈل کلاس کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور جو اپر کلاس کے افسران آتے ہیں وہ بعد میں سروس کو چھوڑ جاتے ہیں اوردیگر شعبوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اپر کلاس کے لوگ سوشل سروس میں ایڈجسٹ نہیں ہوتے اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ جو سول سروس میں آجاتے ہیں وہ بہتر پے پیکیج اور امیر بننے کے چکر میں یا تو کرپشن کا سہارا لیتے ہیں یا پھر سرکاری نوکری سے چھٹی لے کر نجی شعبہ میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر چلے جاتے ہیں۔

 وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین اور افسران کا پیکیج اور سروس سٹرکچر کو اپ گریڈ کرے اور موجودہ مہنگائی کے مطابق سرکاری ملازمین اور افسران کو تنخواہ دی جائے تاکہ افسر شاہی کا برین ڈرین روکا جا سکے، اس وقت بھی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے کئی ملازمین سیکرٹریٹ ڈیوٹی کے بعد شام کو مختلف نجی دفاتر میں نوکری کرتے ہیں کیونکہ سرکاری تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔

 افسران کو سرکاری نوکری چھوڑ کر نجی شعبہ میں چلے جاتے ہیں اور ویسے بھی افسران کی تو موجیں ہی موجیں ہوتی ہیں جبکہ چھوٹے ملازمین بے چارے پس جاتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین کو نہ گھر نہ گاڑی اور نہ ہی دیگر سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ حکومت جب ان افسران کی بھرتی، ٹریننگ ، اور فیلڈ اور ہیڈ کوارٹر جاب اور تجربہ دلانے کیلئے بے تحاشہ خرچ کرتی ہے اور انہیں غیر ملکی دوروں اور ورک شاپ میں شرکت کیلئے بھیجتی ہے، تو ان کی سرکاری شعبہ سے نجی شعبہ میں نوکری پر پابندی لگانی چاہئے تاکہ یہ افسران پکے پروفیشنل افسر بن سکیں اور سول سروس کیلئے بھرتی ہونے والے افسران سول سروس کی ہی نوکری کر سکیں اور عوامی خدمت کا اپنا شعار بنائیں۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر