سٹی42 : اسرائیل کے وزیر خارجہ کیٹز نے اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجروں کی بحالی کے ادارہ یو این آر ڈبلیو اے UNRWA کے معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرنے کا رسمی اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں مین مشکلات کا شکار پناہ گزین مزید سنگین صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے اسرائیل کی کنیست (پارلیمنٹ ) نے اسرائیل میں یو این آر ڈبلیو اے کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے لئے ووٹ دیا تھا۔ کنیست نے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے اسرائیل میں کام کرنے پر پابندی کے دو قانونی مسودوں کی منظوری دی ہے۔
اس کے بعد اسرائیل نے اقوام متحدہ کو رسمی خط لکھ کر اعلان کیا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے بنائی گئی خصوصی ایجنسی UNRWA کے ساتھ تعلقات منقطع کر رہا ہے۔
Knesset کے اسرائیل میں UNRWA کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کے بعد وزیر خٓرجہ کیٹز نے اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجروں کیلئے خصوصی ادارہ یو این آر ڈبلیو اے سے 1967 کے معاہدے کو کالعدم قرار دیا۔
اسرائیل کو شکایت ہے کہ اقوام متحدہ کے اس ادارہ میں دہشتگردوں کو ملازمت دی گئی اور اس ادارہ کے پلیٹ فارم کو دہشتگردوں نے اپنی سرگرمیوں کو کیموفلیج کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس ضمن میں بہت سے الزامات سامنے آتے رہے تاہم سب سے سنگین الزام یہ سامنے آیا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں گھس کر دہشت گردی کرنے والے سینکڑوں افراد مین یو این آڑ ڈبلیو اے UNRWA کے باقاعدہ ملازم بھی شامل تھے۔ اسرائیل نے UNRWA کے مدہشت گردوں کے ساتھ تعلقات اور اقوام متحدہ کی امداد کو دہشت گردی سے منسلک تنظیموں کو بھیجنے کے منصوبے کا حوالہ بھی دیا۔ اسرائیل نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کو غزہ میں کام کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم ان دہشتگردوں کے زیر استعمال ہے جن کے خلاف وہ غزہ میں جنگ کر رہا ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کے خلاف اسرائیل کی سخت کارروائی کا فوری نتیجہ ضرورت مند فلسطینیوں کیلئے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر اور کمی کی صورت میں نکلنے کا خدشہ ہے۔
اسرائیل کی نیوز ویب سائٹ وائی نیٹ نے بتایا ہے کہ اسرائیلی سرزمین کے اندر UNRWA کی کارروائیاں ختم کرنے کے لئے کنیست Knesset کی حالیہ قانون سازی کے بعد، وزیر خارجہ کاٹز نے اسرائیل اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے درمیان 1967 کے معاہدے کی منسوخی کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ ان الزامات کے بعد آیا ہے کہ 7 اکتوبر کے دہشتگرد حملوں میں UNRWA کے اہلکار ملوث تھے۔ 1967 کے اس معاہدے نے پہلے اسرائیل اور امدادی ادارہ کے درمیان تعلقات کو کنٹرول کرنے والے قانونی فریم ورک کے طور پر کام کیا تھا۔
اقوام متحدہ اور دہشتگردوں کے گٹھ جوڑ کی قیمت غزہ کے مجبور پناہ گزین ادا کریں گے
اقوام متحدہ کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات ختم ہونے سے غزہ میں خوراک کی شدید قلت ہو جائے گی اور قحط جیسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف اقوام متحدہ نے یا خود UNRWA نے سات اکتوبر حملوں میں تنظیم کے ملازموں کے ملوث ہونے اور اس تنظیم کے وسائل کو دہشتگردوں کے تحفظ کے لئے استعمال کئے جانے کے سنگین الزامات کو لے کر اسرائیل کی اشک شوئی کے لئے کچھ نہیں کیا اور اس سنگین صورتحال کے ذمہداروں کا تعین کر کے انہیں ادارہ سے الگ کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں کیا۔
اس کے بعد اب یہ ہوا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں قحط کے انتباہ کے درمیان اقوام متحدہ کو UNRWA کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی اطلاع دے دی ہے۔ یہ اقدام کئی روز سے کارڈز پر تھا۔
اسرائیلی فوجی 8 فروری 2024 کو غزہ کی پٹی میں UNRWA ہیڈ کوارٹر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
UNRWA کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پابندی جنگ زدہ غزہ میں انسانی ہمدردی کے کاموں کے 'خاتمے' کا باعث بنے گی [فائل: ڈیلن مارٹنیز/رائٹرز]
پیر کو ایک بیان میں، اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے 1967 کے تعاون کے معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے جس نے UNRWA کے ساتھ ملک کے تعلقات کی قانونی بنیاد فراہم کی تھی۔
الجزیرہ نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے UNRWA کو کالعدم قرار دینے سے فلسطینیوں کی زندگی 'ناقابل برداشت' ہو جائے گی۔
"اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ سے اس پر پابندی کیوں لگائی ہے؟" اس سوال کا ایک جواب وہ ہے جو اسرائیل تسلسل کے ساتھ مہینوں سے بتاتا رہا ہے اور آخر کار بات پابندی اور تعلقات مستقلاً منقطع ہونے تک پہنچی، لیکن اسرائیل کے ناقد اور فلسطینی اس بات پر غور تک کرنے پر آمادہ نہیں، ان کا ایک ہی اصرار ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی (UNRWA) پر پابندیاں " فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کو پامال کرنے اور انہیں مقبوضہ علاقوں سے بے دخل کرنے کی وسیع تر کوشش" کا حصہ ہے۔نکتہ نظر کے اس بہت بڑے اور غیر حقیقت پسندانہ اختلاف کا خمیازہ بہرحال عام فلسطینیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جن کے لئے یو این آر ڈبلیو اے کی فراہم کردہ امداد کا کوئی فوری متبادل دستیاب نہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے دو بلوں کو منظور کیا جس کے نتیجہ میں UNRWA کو اسرائیلی سرزمین پر کام کرنے سے روک دیا گیا، مشرقی یروشلم اور غزہ سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں اس کے کمپاؤنڈز کو بند کر دیا گیا۔
الجزیرہ نیوز نے اپنی رپورٹ مین کہا ہے کہ اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ فلسطینی گروپ حماس کے جنگجوؤں نے UNRWA میں دراندازی کی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اس ایجنسی کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔
UNRWA نے پیر کے روز کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اس کی کارروائیوں پر پابندی جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کے کاموں کے "تباہ" ہونے کا باعث بنے گی۔
یو این آر ڈبلیو اے کے ترجمان جوناتھن فولر نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو بتایا، ’’اگر یہ قانون لاگو ہوتا ہے، تو یہ غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی انسانی ہمدردی آپریشن کے خاتمے کا سبب بنے گا – ایک آپریشن جس میں UNRWA ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ 1948 کی اسرائیل کی تخلیق کے بعد سے فلسطینی پناہ گزینوں کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر بنیادی خدمات فراہم کرتا ہے، جن کی تعداد اب تقریباً 60 لاکھ ہے۔ غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں پناہ گزین خاندانوں کی اکثریت ہے۔
دیگر امدادی گروپوں نے بھی خبردار کیا ہے کہ UNRWA پر اسرائیل کی پابندی غزہ میں شدید انسانی بحران سے نمٹنے میں مزید رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی دیگر ایجنسیاں اور امدادی گروپ اس خلا کو پُر کرسکتے ہیں، لیکن ان تنظیموں کا اصرار ہے کہ UNRWA ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کو اسرائیل کا نوٹیفکیشن اس وقت آیا جب ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے پیر کے روز خبردار کیا کہ غزہ میں انسانی صورت حال "جلد ہی قحط کی شکل اختیار کر سکتی ہے" کیونکہ اسرائیلی فورسز انکلیو میں خوراک اور دیگر سامان کے داخلے پر سخت پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہفتے کے روز، ڈبلیو ایف پی کے ایک اہلکار نے کہا کہ ایجنسی غزہ میں UNRWA کے متبادل کے طور پر کام نہیں کر سکتی۔ ڈبلیو ایف پی برلن کے دفتر کے سربراہ مارٹن فریک نے جرمن میڈیا گروپ RND کو بتایا کہ "ہم غزہ میں UNRWA کے اہم کاموں، جیسے ہنگامی پناہ گاہوں، اسکولوں اور صحت کے مراکز کی انتظامیہ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔" دوسری جانب اسرائیل کا اسرار ہے کہ سکولوں، صحت کے مراکز اور ہنگامی پناہ گاہوں کے سٹاف میں یو این آر ڈبلیو اے حماس کے کارکنوں کو چھپاتی رہی ہے۔ ان کارکنوں کے زریعہ سکول، صحت کے مراکز اور ہنگامی پناہ گاہیں حماس کے دہشتگردوں کو چھپاتی ہیں۔ انہی الزامات کو لے کر اسرائیل کی جانب سے سکولوں، صحت کے مراکز اور ہنگامی پناہ گاہوں پر جنگی پیمانہ کے حملے بھی کئے جن سے بھاری جانی نقصان ہوا اور دنیا کی جانب سے سخت تنقید کی گئی تاہم اصل سوال جہاں تھا اب تک وہیں ہے کہ کیا یہ امدادی سکول، صحت کے مراکز اور ہنگامی پناہ گاہیں دہشتگردوں کی بھی پناہ گاہیں نہیں بنتی رہیں۔
جنوری میں، اسرائیل نے پہلی مرتبہ دعویٰ کیا تھا کہ UNRWA کے ایک درجن سے زائد ارکان نے گزشتہ سال حماس کی قیادت میں اسرائیل پر حملے میں حصہ لیا، جس میں فلسطینی جنگجوؤں نے 1,100 سے زائد افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا۔
اسرائیلل اور اقوام متحدہ کے درمیان یو این آر ڈبیلو اے کے متعلق تنازعہ بروقت حل نہ ہونے کا ایک تلخ نتیجہ 12 ستمبر 2024 کو وسطی غزہ میں نصیرات کے بڑے پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی ائیر سٹرائیکس مین 34 افراد کے مرنے کی صورت میں سامنے آیا، ان 34 میں یو این آڑ ڈبلیو اے کے 6 اہلکار بھی شامل تھے۔ اسرائیل کے حملے کا جواز ہمیشہ کی طرح یہ تھا کہ اس پناہ گزین کیمپ مین حماس کے دہشتگرد کارکن چھپے ہوئے تھے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA کے عملے کے چھ ارکان 12 ستمبر کو بدھ کے روز غزہ میں اس وقت مارے گئے جب دو اسرائیلی فضائی حملوں نے UNRWA کے ایک اسکول اور اس کے اطراف کو نشانہ بنایا۔ UNRWA نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا، "یہ ہمارے عملے میں کسی ایک واقعے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔"
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان ہوائی حملوں میں کم از کم 34 افراد ہلاک ہوئے۔ UNRWA نے کہا کہ شیلٹر مینیجر اور ٹیم کے دیگر ارکان متاثرین میں شامل ہیں۔
نصیرات میں واقع UNRWA اسکول تقریباً 12,000 بے گھر افراد کو پناہ دے رہا تھا، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ 11 ماہ قبل تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے یہ جگہ پانچویں بار نشانہ بنی ہے۔
اس سے قبل بدھ کے روز اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ اس جگہ پر پہلے بھی اسرائیلی فورسز کے ساتھ تنازعہ ہوا تھا۔