کمیلا ہیرس کی برتری 5 اکتوبر کی شب تک برقرار رہے گی؟ حقیقت پسندانہ تجزیہ

4 Nov, 2024 | 02:45 AM

Waseem Azmet

وسیم عظمت:  امریکہ میں نئے  صدر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کل شب مکمل ہو جائے گی۔ ڈراپ اِن پولنگ بکسوں میں ووٹنگ یوں تو کئی روز سے جاری ہے اور ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہو چکے ہیں لیکن " پولنگ سٹیشنوں پر روایتی ووٹنگ"  کل 5 نومبر کو ہو گی۔

کہا جا رہا ہے کہ  ڈیموکریٹک امیدوار خاتون  کمیلا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا لیکن یہ مقابلہ کچھ ایسا بھی "کانٹے کا" نہیں ہو گا کیونکہ کمیلا ہیرس کے پاس جھولے کی طرح جھولتی ریاستوں میں اِدھر اُدھر ڈولتے ووٹروں کے دِل جیتنے کے لئے بہت کچھ زیادہ ہے اور پہلے ہی کئی حوالوں سے بدنام سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس بتانے کے لئے اوٹ پٹانگ نفرتی نعروں کے سوا  کچھ باقی نہیں

کمیلا ہیرس کی برتری

رائے عامہ کے جائزوں میں کمیلا ہیرس کو صرف ایک اعشاریہ تین  پوائنٹس کی برتری حاصل ہے لیکن یہ ہی برتری انہیں ایک ہفتے پہلے بھی حاصل تھی، چار ہفتے پہلے البتہ یہ برتری کچھ زیادہ تھی جو غالباً دو اعشاریہ آٹھ پوائنٹ تھی۔

 تازہ ترین اپ ڈیٹس کیا ہیں؟
ملک بھر  میں کمیلا ہیرس کو سوا پوائنٹ کی برتری تو حاصل ہے لیکن نازک ریاستوں میں، جو انتخابی نتائج کا تعین کر سکتی ہیں،  جنہیں میدانِ جنگ کی ریاستیں بھی کہا جاتا ہے، وہاں مقابلہ اور بھی سخت ہے۔

میدان جنگ کی اہم ریاستوں میں پنسلوانیا، شمالی کیرولینا، جارجیا، مشی گن، ایریزونا، وسکونسن اور نیواڈا شامل ہیں۔

جس کی تشریح یہ کی جا رہی ہے کہ بلیو اور ریڈ ریاستیں جدھر گزشتہ الیکشن میں گئی تھیں ادھر ہی 5 نومبر کو بھی جائیں گی اور جھولتے ہوئے ووٹر صرف جھولتی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کا فیصلہ کریں گے اور انہی الیکٹورل ووٹوں سے ہی یہ طے ہو گا کہامریکہ کو ایک خاتون صدر ملتی ہے یا وہی پرانا ، بات بات پر دھمکیاں دینے والا ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آ کر امریکیوں کو "سبق" سکھاتا ہے۔  آخری ایک ہفتے کے دوران صدر کے الیکشن کے  دونوں امیدواروں کی مکمل توجہ جھولتی ہوئی ریاستوں یعنی سوئنگ اسٹیٹس پر  رہی ہے۔ 

ٹرمپ کا سٹیریو ٹائپس پر انحصار  اور کمیلا کا ڈائیورسٹی سے کھیلنا

کمیلا ہیرس مشی گن میں ریلیاں کرر ہی ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ پنسلوینیا، نارتھ کیرولائنا اور جارجیا کے درمیان گھوم ہی رہے ہیں جہاں وہ  کرسچئین بنیاد پرستی کو ہوا دینے والی باتیں کر کے ووٹروں کو ایموشنلی بلیک میل کر رہے ہیں۔ ممکن ہے اپنے  مخصوص کرسچئین اور وائٹ سپرمیسسٹ پوسچر کو ابھار کر ٹرمپ کو نارتھ کیرولائنا، جارجیا اور پینسلوینیا میں کچھ بنیاد پرستی کی طرف مائل ووٹ زیادہ مل جائیں لیکن ان ہی ریاستوں میں نئے ووٹر  بھی بہت رجسٹرڈ ہوئے ہیں جو بہرحال نوجوان ہیں اور "نئے" فنامنا کی طرف زیادہ متوجہ ہیں۔ ووٹ اینٹھنے کے لئے بنیاد پرستی کا پرچار اور وائٹ سپریمیسی کی للکار امریکہ میں نیا فنامنا نہیں، نیا کچھ واقعی ہے تو وہ عورت کا صدر بننا ہے۔کیا یہ "نیا" نئے ووٹرز کو اٹریکٹ کر پائے گا؟ اس کا بہت کچھ دارومدار  کمیلا ہیرس کی آخری تقریر تک کہی ہوئی باتوں پر ہو گا۔ ان کے پاس کہنے کو ڈونلڈ ٹرمپہ کی نسبت کافی زیادہ مواد ہے کیونکہ ان کی کیمپین میں ڈائیورسٹی ہے، وہ زیادہ  ایتھنک گروپس، مختلف کلچرل بیک گراؤنڈز اور  مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں۔

جارجیا اور نارتھ کیرلائینا کے کرسچئین یوتھس اور عورتیں

جارجیا اور نارتھ کیرولائنا جیسی جنوبی سوئنگ اسٹیٹس میں ایوانجلیکل مسیحیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، یہ لوگ ری پبلکن ووٹرز ہیں لیکن ان کمیونٹیز میں نوجوانوں کی وجہ سے ووٹنگ کا رجحان بدلنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لئے ہمیں امریکہ میں ووٹنگ کا عمل تمام ہونے تک انتظار کرنا ہے۔ 

کہا جا رہا ہے کہ سٹانچ کرسچئین خیالات کی  بیک گراؤنڈ  رکھنے والے گھرانوں کے نوجوانوں کی نظر میں اسقاطِ حمل پر پابندی سے زیادہ اہم معیشت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل ہیں، ان دونوں معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے گزشتہ صدارتی دورانیہ میں خاصی بدنامیاں کما چکے ہیں کیونکہ انہوں نے فرانس میں طے ہونے والے عالمی مقاصد کو لے کر اپنے حصے کے بیشتر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیں امریکی صنعتوں کی پروڈکشن گرنے سے اور پرافٹس کم ہونے سے معیشت کی گراوٹ کے سیاسی فال آؤٹ سے ڈر لگتا تھا۔ اب بھی صدارتی انتخاب کیلئے مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ماحول کی تبدیلی کا سبب بننے والے عوامل کو جھٹلاتے رہے یا ان پر بات کرنے سے کتراتے رہے۔ 

مشی گن کے عرب مسلم ووٹ؛ جائیں تو جائیں کہاں!

اُدھر مشی گن میں کمیلا ہیرس اُن علاقوں میں جانے سے گریز کر رہی ہیں جہاں عرب اور مسلم باشندوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ مشی گن کے عرب ووٹرز کی اکثریت روایتی طور پر ڈیموکریٹس کو ووٹ کرتی ہے  لیکن اس مرتبہ عرب بیک گراؤنڈ کے امریکی اسرائیل کی غزہ جنگ کے ھوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کی موجودہ حکومت کے شاکی ہیں۔ عرب مسلم بیک گراؤنڈ کے ووٹروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ  بائیڈن انتظامیہ سے سخت ناراض ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ تب بھی نہیں دے سکتے کیونکہ ٹرمپ سے یہی شکایات زیادہ شدید ہیں۔  قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ عرب مسلم بیک گراؤنڈ امریکیوں کی پاکٹس میں گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار جلِ اسٹین کو قدرے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں جو صدر کے انتخاب میں طاقت کے مجموعی توازن پر تو اثر انداز نہیں ہوں گے تاہم ممکن ہے کہ پاپولر ووٹ کی گنتی میں کمیلا ہیرس کو کچھ نقصان ہو جائے۔ امریکا میں مسلمانوں کی  تنظیم امریکی اسلامک کونسل کی  رائے شماری سے یہ تاثر ملا ہے جل اسٹین کو 42.3 فیصد مسلم ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔

جھولتی ریاستوں میں بظاہر اب تک  اَن ڈیسائیڈڈ ووٹر کل کدھر جائے گا؟

الیکشن سے دو دن پہلے تک یہ تاثر برقرار ہے کہ  کمیلا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ ہر ایک "میدان جنگ کی سات ریاستوں"  میں سے تقریباً نصف میں برتری رکھتے ہیں جو الیکٹورل کالج کے ووٹ کا فیصلہ کریں گی اور اس وجہ سے انتخابات کا حتمی فاتح ہوگا۔ ان ریاستوں میں سے زیادہ تر  دونوں امیدواروں کے لیے کھلی ہیں، بشمول پنسلوانیا جیسی بالکل نازک ریاستیں، ان کے عوام کیا سوچ رہے ہیں اس کا پتہ پولنگ ڈے کے اختتام پر ہی چلے گا۔

کمیلا ہیرس کیلئے اچھی خبر یں

صفِ اول کے میڈیا آؤٹ لیٹ اکانومسٹ نے دو ہفتے پہلے اپنے  تازہ ترین تجزیہ میں تسلیم کیا  کہ پہلے وہ سمجھتے رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آسانی سے الیکشن جیت جائے گا لیکن اب ان کی رائے یہ ہے کہ بہت کلوز مقابلہ ہو گا اور جو بھی جیتے گا وہ تھوڑے ووٹوں کے فرق سے جیتے گا جبکہ کانگرس منقسم ہے اور اگر ریپبلکنز نے سینیٹ پر قبضہ کر لیا تو   اگر کمیلا ہیرس صدر بنیں تو یہ منقسم پارلیمنٹ ان کے لئے زیادہ مسائل پیدا کرے گی۔

اکانومسٹ کے تازہ تجزیہ میں کھلے دل سے تسلیم کیا گیا کہ ان کا گزشتہ تجزیہ غلط نکلا، "اب ہمیں یقین ہے کہ انتخابات ٹوس اپ ہوں گے، جو کہ ہماری سابقہ ​پیشین گوئی سےمختلف ہے جب ہم نے کہا تھا  کہ مسٹر ٹرمپ جیت جائیں گے۔ اب ہم کہہ رہے ہیں کہ حتمی نتیجہ انتہائی قریب ہوگا۔ اکانومسٹ نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ پولنگ ڈے کے  بعد بھی ممکنہ طور پر جیتنے والا واضح نہیں ہوگا۔
اکانومسٹ کے مطابق  جھولتے ہوئے ووٹرز اور میدان جنگ کی ریاستوں میں ٹرن آؤٹ کی ترکیب بالآخر انتخابات کا فیصلہ کرے گی۔ امریکی معیشت، خواتین کے صحت کی دیکھ بھال کے حقوق اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات رائے دہندگان کے رویے کی تشکیل کے ممکنہ عوامل میں شامل ہیں۔
اکانومسٹ نے ایک گراف میں یہ بتایا کہ کمیلا ہیرس جب سے امیدوار بنی ہیں ان کی مقبولیت مسلسل بڑھی ہے اور اب وہ مقبولیت میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ 

اکانومسٹ کی دو ہفتے پہلے کی ایک اشاعت سے یہ گراف گوگل کے ذریعہ لیا گیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکانومسٹ کا یہ تجزیہ شائع ہونے کے بعد بھی کمیلا کی مقبولیت  برقرار رہنے کا رجحان تسلسل کے ساتھ جاری رہا جس میں ان کی اپنی کوشش سے زیادہ دونلڈ ٹرمپ کی بوکھلاہٹ، امریکہ س میں معیشت کی بہتری اور امریکہ سے باہر موجود عوامل کا  زیادہ کردار ہے۔ 

مس ہیرس اور ٹرمپ کے جیتنے کے برابر امکانات 
 اپنی مہم شروع کرنے کے بعد سے، کمیلا ہیرس نے ان وسیع اور مستحکم پولنگ لیڈز کو مٹا دیا جو ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے موجودہ اور سابقہ ​​صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے خلاف حاصل کی تھیں۔کمیلا ہیریس نے قومی انتخابات میں اپنی مہینوں کی برتری برقرار رکھی ہوئی ہے، حالانکہاب یہ پونے تین سے کم ہو کر 1.3  پوائنٹس کہی رہ گئی ہے لیکن یہ ایک ہفتے سے یہیں کھڑی ہے یعنی مستحکم ہے۔

کون سے تین عوامل نتیجہ کا تعین کر سکتے ہیں
صدارتی انتخابات کے نتائج کا تعین غیر فیصلہ کن ووٹروں کی ایک چھوٹی تعداد اور میدان جنگ کی ریاستوں میں ٹرن آؤٹ سے کیا جائے گا۔ تین اہم عوامل اس بارے میں فیصلےپر اثر انداز ہوں گے اور یہی عوامل  الیکٹورل کالج کے نتائج پر سب سے زیادہ اثر ڈالیں گے۔

امریکی معیشت:

معیشت کو لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کو  اس وقت تک فائدہ ہوا، جب تک جو  بائیڈن ڈیموکریٹک امیدوار تھے اور افراط زر  بلند تھی، کمیلا  ہیرس اس فائدہ کو ختم کرنے میں ڈرامائی انداز سے  کامیاب رہی ہیں، یہاں تک کہ معیشت کے بارے میں حالیہ کچھ پولز میں کمیلا ہیرس ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے نکل گئیں۔ پچھلے مہینے میں شائع ہونے والی مضبوط اقتصادی ترقی اور لیبر مارکیٹ کے اعداد و شمار نے کمیلا کے فائدے کے لیے کام کیا ہے۔ 

 فیڈرل ریزرو (فیڈ، مرکزی بینک) کی جانب سے سود کی شرحوں میں کمی شروع کرنے کا حالیہ فیصلہ نے بھی ان کے لئے رائے ہموار کی کیونکہ اس فیصلے سے مہنگائی میں آسانی ہونے جارہی ہے- اگلی فیڈ میٹنگ ہے۔ الیکشن کے فوراً بعد.  اضافی اقتصادی نمو اور روزگار کے اعداد و شمار کا اجراء رائے دہندگان کی رائے کو مزید تشکیل دے سکتا ہے، اور تیسری سہ ماہی میں GDP کی ٹھوس نمو کی توقع سے محترمہ ہیرس کو تقویت ملنے کا امکان ہے۔

ٹرمپ کو اپنی اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں ووٹروں کے بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔   انتخابات سے قبل جمعے کو ہونے والے اکثر حیران کن ملازمتوں کے اعداد و شمار ووٹر کی رائے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم، ایریزونا، جارجیا اور مشی گن جیسی اہم ریاستوں اور پنسلوانیا کی کچھ کاؤنٹیوں میں ابتدائی ووٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ اعداد و شمار کے جاری ہونے تک کافی ووٹ ڈالے جا چکے ہوں گے۔

ویمن ہیلتھ کئیر رائٹس

خواتین کے صحت کی دیکھ بھال کے حقوق (محترمہ ہیرس کے حق میں): تولیدی صحت ووٹروں کی سب سے بڑی تشویش بنی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ اسقاط حمل کے حقوق سے  لے کر خواتین کے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کا احاطہ کرتا ہے،  اسقاط حمل کے علاج کے ساتھ ساتھ مانع حمل اور فرٹیلٹی کے علاج تک تمام مسائل پر کمیلا ہیرس کی پوزیشن دراصل ان کی اب تک برقرار برتری کا سب سے اہم فیکٹر ہے، بلکہ شاید یہ معاملہ ہی ان کی جیت کا ٹرمپ کارڈ ہے ۔

 یہ مسئلہ ڈیموکریٹس کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہوا ہے، جس نے 2022 کے وسط مدتی اور 2023 کے ریاستی انتخابات میں حیرت انگیز فتوحات حاصل کرنے میں بھی مدد کی، خاص طور پر نوجوان، خواتین اور آزاد رائے دہندگان کو متحرک کرکے اور ووٹر ٹرن آؤٹ کی حوصلہ افزائی کی۔

ویمن ہیلتھ کئیر رائٹس کے لیے کمیلا ہیرس  کی غیر متزلزل حمایت، اسقاط حمل کے  لئے وفاقی پروٹیکشنز   کو بحال کرنے کے ان کے منصوبوں (حالانکہ اسے کانگریس میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا) اور  سپریم کورٹ میں لبرل ججوں کی تقرری کے لیے ان کی  کوششوں کے پیش نظر،  کمیلا ہیرس عورتوں کے ووٹ جیتنے کے لیے بڑی انرجی رکھتی ہیں، دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کا  عورتوں کی ہیلتھ کئیر خصوصاً ابارشن رائٹس پر الجھا ہوا نقطہ نظر (مجوزہ وفاقی اسقاط حمل پابندی پر ان کا مؤقف واضح نہیں ہے) صرف کمیلا  ہیریس کو مزید مدد دے گا۔ اسقاط حمل تک رسائی سے متعلق بیلٹ اقدامات، جن پر کئی ریاستیں انتخابات کے دوران ووٹ دیں گی، کچھ اہم ریاستوں میں ممکنہ طور پر ہیریس ووٹروں کے درمیان ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ کرکے اسے اضافی فروغ دینا چاہیے۔ ایریزونا، فلوریڈا اور نیواڈا ان ریاستوں میں شامل ہیں جہاں کمیلا کو اضافی فائدہ ہو جائے گا۔ان ریاستوں میں کمیلا ہیریس کی کارکردگی زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے۔


اسرائیل، ایران، حزب اللہ، حماس کا تنازعہ: 

روایتی تجزیہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کے ساتھ جڑے ووٹروں میں مقبول دیکھنے سے آگے کچھ نہیں  دیکھ سکتا لیکن جو کچھ گزشتہ ایک سال میں غزہ، دو ماہ میں لبنان اور حالیہ چند دنوں میں ایران میں ہوا اس نے رائے عامہ کے روایتی تجزیوں کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ کمیلا ہیرس غیر متوقع طور پر ایران کی سب سے بڑی مخالف بن کر ابھریں، صدر جو بائیڈن اسرائیل کے سب سے بڑے مربی بن کر ابھرے اور انہوں نے صرف ہائی ایلٹی ٹیوڈ میزائل ڈیفینس تھیڈ ہی اٹھا کر اسرائیل نہیں پہنچا دیا بلکہ اس سسٹم کو آپریٹ کرنے کے لئے سو سے زیادہ امریکی فوجی بھی اسرائیل بھیج دیئے۔ یکم اکتوبر کے ایران کے دو سو  بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے بعد  نیتن یاہو کو ایران کے نیوکلئیر پروگرام اور تیل کی تنصیبات پر حملوں سے روک کر صدر بائیڈن نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کی معیشت کو شدید جھٹکے سے بچایا تو دوسری طرف انہوں نے نہ صرف بیلسٹک میزائل کے مستقبل کے ھملوں سے بچانےوالا تھیڈ THAAD سسٹم اسرائیل کو دے دیا بلکہ لبنان اور غزہ میں جاری جنگ میں بھی پہلے سے زیادہ اسرائیل کی مدد کی حکمت عملی اپنا کر امریکی ووٹرز کو یہ پیغام دیا کہ اسرائیل کے ضمن میں  ڈونلڈ ٹرمپ کی اس روایتی برتری کی اب عملاً  کہیں کوئی وجہ باقی نہیں رہی جو ریپبلکنز  کو بیشتر اوقات ڈیموکریٹس پر حاصل رہی ہے۔ 

غزہ میں انسانی بحران پر سخت زور دینے کے باوجود، کمیلا ہیرس کی صدر بائیڈن کی اسرائیل کے لیے حمایت کے ساتھ مسلسل صف بندی نے ان کے عرب/مسلم ووٹرز کوق ڈسٹرب کیا ہے  جو روایتی طور پر ڈیموکریٹ کو ایک بلاک کے طور پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر میدان جنگ کی ریاست مشی گن میں ایک اہم فیکٹر ہے۔ اس ریاست میں جو ٹر بائیڈن نے 2020 کے انتخابات میں  الیکٹورل ووٹ حاصل کئے تھے اور یہاں ملک کی سب سے بڑی عرب امریکی آبادی مقیم ہے۔

 ریاست کی "غیر پرعزم" تحریک نے محترمہ ہیریس کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ یہ ٹرمپ کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ایک مفروضہ یہ ہے  کہ ٹرمپ  کی مسلم مخالف بیان بازی کی وجہ سے بیشتر عرب/مسلم ووٹر اب بھی کمیلا ہیرس کو ہی ووٹ دیں گے۔ تاہم جیسا کہ آج پیر کے روز تک واضح ہے کہ کمیلا ہیرس اس ووٹنگ گروپ پر ڈیپینڈ نہیں کر رہیں بلکہ مشی گن میں دوسرے گروپس کی زیادہ حمایت جیتنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ یہ انتخابی فتح کے لیے ان کے راستے کو پیچیدہ بنا دے گا۔ اگر  الیکشن سے ایک  دن پہلے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے تو ممکن ہے کہ کمیلا کو اس کا غیر متوقع نقصان ہو جائے تاہم یہ تب بھی ان کے اس نئی صورتحال میں ردعمل پر زیادہ منحصر ہو گا۔ 

کمیلا  ہیرس کی آخری کوششیں کہاں اور کیا؟
کمیلا ہیریس نے اپنا آخری کیمپین سپیل کا کچھ حصہ دن وسکونسن میں جینس ویل، لٹل چوٹ، میڈیسن اور ملواکی میں ہونے والے پروگراموں کے ساتھ گزارا۔ ان کے پروگراموں  میں گلوکار گلوریلا، کارڈی بی اور فلو ملی نے آواز اور میوزک کا جادو جگائے رکھا۔ 


کیمپین کے آخر میں کمیلا ہیرس نے ایک دلچسپ پیش رفت یہ کی کہ ری پبلکن پارٹی کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقد خاتون  لز چینی پر  ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بد زبانی پر مبنی حملےکو لے کر  ٹرمپ پر سخت تنقید کی۔ ٹرمپ نے اپنی پارٹی کی خاتون سیاستدان چینی پر حملہ کرتے ئوے اس سابق قانون ساز خاتون کے متعلق کہا کہ اسے پالیسی موقف کے لیے تربیت یافتہ بندوقوں سے لڑائی کا سامنا کرنا چاہیے۔(یعنی کرائے کے شوٹرز جیسا کوئی انتظام) ٹرمپ نے مزید کہا: "وہ ایک بنیاد پرست جنگ باز ہے،" ٹرمپ نے جمعرات کو فاکس نیوز کے سابق ٹیلی ویژن میزبان ٹکر کارلسن کے ساتھ گلینڈیل، ایریزونا میں ایک مہم کے موقع پر کہا، انہوں نے چینی کو "ایک منحوس شخص" اور "ایک انتہائی گونگا فرد" بھی کہا۔

اس سب بدزبانی کو لے کر کمیلا ہیرس نے لِز چینی کو "ایک سچی محب وطن" قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی "تشدد پر مبنی بیان بازی" سے انہیں دوبارہ صدر بننے کے لیے نااہل قرار دینا چاہیے۔

"اس کے دشمنوں کی فہرست لمبی ہو گئی ہے۔ اس کی بیان بازی میں مزید شدت آگئی ہے،" ہیریس نے میڈیسن، وسکونسن پہنچنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا۔ "اور وہ امریکی عوام کو درپیش ضروریات اور خدشات اور چیلنجوں پر پہلے سے بھی کم توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔"

اپنی ریلیوں میں، کمیلا نے صدر بننے کے بعد آوازوں کی ایک وسیع رینج کو سننے کا وعدہ بھی کیا۔

ہفتے کے روز کمیلا ہیرس شارلٹ، شمالی کیرولائنا کی طرف روانہ ہوئیں۔ توقع کے مطابق ان  کی یہ ریلی ایک بار پھر ستاروں سے بھری تقریب ثابت ہوئی جس میں موسیقاروں جون بون جووی اور خالد نے پرفارم کیا۔ ڈیموکریٹس نے 2008 کے بعد سے نارتھ  کیرولائنا میں صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے اور کمیلا ہیرس کل کے ووٹ سے اس ریاست میں تاریخ کا صفحہ پلٹنے کی خواہشمند ہیں۔

بدھ کے روز بھی شمالی کیرولائنا کے ریلے جیسی ریلی میں، کمیلا نے اصرار کیا  تھا کہ ڈیموکریٹس "حقیقت میں جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں"۔ "ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس، میں نہیں مانتی کہ جو لوگ مجھ سے اختلاف کرتے ہیں وہ دشمن ہیں،" انہوں نے کہا  وہ انہیں جیل میں ڈالنا چاہتا ہے، میں انہیں میز پر بیٹھا دوں گی۔

کمیلا نے مزید کہا، "میں تمام امریکیوں کے لیے صدر بننے کا عہد کرتی ہوں اور ملک کو ہمیشہ پارٹی اور خود سے بالاتر رکھوں گی۔"

Caption  امریکیوں نے 2020 کے الیکشن میں 5 نومبر کو ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن کو ووٹ دے کر صدر بنایا تھا۔ امریکہ کی عمومی روایت کے برعکس جو بائیڈن اپنی صدارتی ٹرم پوری کرنے کے بعد دوسری مرتبہ الیکشن نہیں لڑ رہے اور انہوں نے نئے ڈیموکریٹ امیدوار کے لئے جگہ خالی چھوڑ دی، صدر جو بائیڈن کے اس فیصلہ کے بعد  ڈیموکریٹک پارٹی نے  کمیلا ہیرس کو اپنی امیدوار بنایا جبکہ 2020 میں الیکشن ہارنے والے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں۔ اوپر نقشے میں نیلے رنگ میں وہ ریاستیں دکھائی گئی ہیں جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو کامیابی ملی تھی۔ 
مزیدخبریں