(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ میں آج سے گاؤن پہننا لازمی قرار دیا گیا، ڈیڑھ سو سالہ پرانے رواج کے مطابق وکلاء آج بھی گاؤن پہن کر عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں لیکن وکلاء کی اکثریت گاؤن پہننے کے تاریخی پس منظر اور اہمیت سے بے خبر ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں گاون پہننے کا رواج کوئی نیا نہیں، بلکہ ڈیڑھ سوسال قبل جب لاہور ہائیکورٹ کا پنجاب کورٹ کے نام سے قیام عمل میں لایا گیا، اس وقت سے گاؤن پہنا جا رہا ہے، عدالتوں میں پیش ہونے والے پریشان حال سائلین سے اظہار یکجہتی کے لیے گاؤن کا رنگ سیاہ رکھا گیا۔
اس کے پچھلے حصے میں چھوٹی سی جیب بنائی گئی جس میں سائل اپنی بساط کے مطابق فیس ڈال دیتا، وکیل اس بات سے بے خبر ہوتا کہ سائل نے اسے کتنی فیس ادا کی ہے، یہ تھا گاؤن کا تاریخی پس منظر اوراب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا، نہیں بدلا تو گاؤن پہننے کا رواج نہیں بدلا، وکلاء سے گاؤن کی تاریخی اہمیت جاننے کی کوشش کی تو وہ وجوہات سے بے خبر نکلے۔
سٹی 42 نے گاؤن پہننے کی اہمیت، گاؤن کے پیچھے چھوٹی جیب، بازؤں پر سلوٹوں کے حوالے سے سوال کیا تو کئی وکلاء آئیں بائیں شائیں کرنے لگے جبکہ کئی نے اسے انگریز دور کی پرانی روایت قرار دے دیا اور کچھ نےمسکرا کر ٹال دیا۔گاؤن پہنے کےعظیم مقاصد سے بے خبر وکلاء آج بھی اسے پہن کرعدالتوں میں پیش ہوتےہیں۔