ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یرغمالی دو قسطوں میں واپس، غزہ حماس سے خالی؛ جنگ بندی کے لئےاسرائیل کے  مطالبے 

Gideon Saar Foreign Minister of Israel, Jerusalem press conference, Doha Talks, Hamas, Disarming the Hamas and Islami Jehad terrorists, city42, Hostage deal, Gaza ceasefire
کیپشن: غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلہ کے لئے مذاکرات ابتدائی توقعات کے مطابق 16 فرری کو شروع ہونا چاہئے تھے۔ آج 4 مارچ کو اسرائیل کے وزیر خٓرجہ ساعار کے مطالبات اور ان پر حماس کے لیڈر کے پبلک بیان نے واضح کیا ہے کہ دوحہ میں ٹیبل پر ڈیڈ لاک موجود ہے، جس کا پبلک کے سامنے اظہار اب ہو رہا ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: غزہ جنگ بندی حماس کی اپنے ہتھیار اور مسلح کارکن  غزہ سے باہر نہ چھوڑنے کی ضد کے سبب جنگ بندی خطرے میں پڑ گئی۔  اسرائیل کے  وزیر خارجہ گیدئین ساعار نے غزہ جنگ بندی کو جاری رکھنے کے لئے اپنے تمام  یرغمالیوں کی فوری واپسی کے ساتھ غزہ  کو جنگجوؤں کے وجود اور ہتھیاروں سے پاک رکھنے کی بھی شرط رکھ دی۔

وزیر خارجہ ساعار نے یروشلم میں پریس کانفرنس کر کے کہا کہ اگر حماس، اسلامک جہاد  غزہ سے نکل جائیں، اسرائیل سے 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کر کے یرغمال بنائے گئے  باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے تو جنگ بندی کے  دوسرے مرحلہ کا فوراً ہی آغاز ہو سکتا ہے۔

ساعارنے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ غزہ کو  مکمل طور پر ہتھیاروں سے پاک کیا جائے، حماس اور اسلامی جہاد غزہ سے نکل جائیں اور مغویوں کو رہا کیا جائے، اگر وہ اس پر تیار ہوجائیں تو کل ہی دوسرے مرحلے کا آغاز ہوسکتا ہے۔اسرائیل غزہ کو ہتھیاروں سے پاک کرنے اور مغویوں کی واپسی کی شرط پر  ہی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرسکتا ہے۔

حماس کا ہتھیار چھوڑنے سے انکار

حماس کے  ایک رہنما سامی ابو ظہری نے اسرائیلی وزیر خارجہ ساعار کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کے ہتھیار حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے "Red Line" ریڈ لائن ہیں۔  ان پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔

 جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے  کے 42 دن گزرنے کے بعد  اسرائیل نے غزہ کیلئے  بیرونی دنیا سے بھیجے جا رہے ہر طرح کے سامان کی ترسیل بزور روک دی ہے۔ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ کے 42 دن مین حماس نے صرف 25 اسرائیلی یرغمالی واپس بھیجے جن مین نوجوان لڑکیاں، اسی سال سے زیادہ عمر کے مرد اور دوسرے کمزور مرد شامل تھے۔

اب اسرائیل کا اصرار ہے کہ حماس تمام باقی زندہ یرغمالی اور مر چکے یرغمالیوں کی میتیں رمضان شریف کے دوران اور پاس اوور کے دن تک دو قسطوں میں  واپس بھیجے۔  اس کے ساتھ اسرائیل بضد ہے کہ حماس کو غزہ میں دوبارہ اپنا گڑھ بنا کر مسلح کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 

جنگ بندی معاہدہ شروع ہوتے ہی غزہ میں عام شہریوں کی واپسی شروع ہوئی تو ان کے ساتھ ہی حماس کے بھی مسلح کارکن غزہ میں واپس آ گئے۔  42 روزہ جنگ بندی کے دوران حماس کے مسلح کارکن ہر ہفتے کے روز اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے نام سے مجمع لگانے اور  یرغمالیوں کی نمائش لگانے کے ساتھ اپنے ہتھیاروں کی نمائش بھی کرتے رہے۔
 حماس کے طاقت کے اس مظاہرہ کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلہ  کی بات چیت کے لئے اضافی مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔ 
جنوری مین طے کئے گئے فریم ورک کے مطابق  غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے تحت حماس کو غزہ میں باقی رہ جانے والے تمام مغویوں کو رہا کرناتھا جبکہ اسرائیلی فوج غزہ سے مکمل طور انخلا کرنا تھا۔ اب اسرائیل اور امریکہ دونوں کا اصرار ہے کہ جنگ بندی جاری  رکھنے کی مزید بات چیت پرانے فریم ورک کے تحت نہیں ہو گی۔ امریکی ایلچی نے اور اسرائیل کے مذاکرات کاروں نے دوحہ مین بالواسطہ بات چیت کے دوران یرغمالیوں کی دو اقساط میں واپسی پر زور دیا ہے اور اس کے ساتھ غزہ کو حماس کے وجود سے خالی رکھنے پر اصرار کیا ہے۔

اس ہی دوران کل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں موجود ہمارے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو اسے ناقابل تصور نتائج بھگتنا ہوں گے۔

وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیر کو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں حماس سے کہتا ہوں اگر تم نے ہمارے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو تمہیں ایسے نتائج بھگتنے پڑیں گے جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

نیتن یاہونے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کی بحالی زیر غور ہے۔جنگ کے آئندہ اور نہ رکنے والے مرحلے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔