سٹی42: کینیڈا میں لبرل برسوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر ابھر کر اوپر آ رہے ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟
کینیڈا مین ہونے والے رائے عامہ کے حالیہ پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبرلز اپوزیشن کنزرویٹو کے ساتھ فاصلہ کم کر رہے ہیں کیونکہ ٹرمپ کی دھمکیوں، وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ نے چیزوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
جسٹن ٹروڈو کا از خود پیچھے ہٹنے کا فیصلہ
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا مستعفی ہونے کا فیصلہ وفاقی انتخابات سے پہلے ان کی لبرل پارٹی کے عوام مین امیج کی بحالی کو متاثر کرنے والے متعدد عوامل میں شامل ہے۔
مونٹریال میں بیٹھ کر عوامی رائے کا مشاہدہ کرنے والوں کو کینیڈا میں صرف چند ماہ پہلے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کو 2025 کے انتخابات میں زبردست شکست کھانے کے لیے تیار دکھائی دے رہی تھی۔
اب چند ہی ماہ بعد کینیڈا مین ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں دکھایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی پارٹی اپوزیشن کنزرویٹو سے صرف 26 فیصد پوائنٹس سے پیچھے ہے۔ آنے والے ہفتوں مین اس کی پوزیشن مزید بہتر ہونے کا قوی امکان ہے۔
'ٹرمپ امپیکٹ
جسٹن ٹروڈو کینیڈا میں بہت زیادہ مقبولیت سے عدم مقبولیت کی طرف آئے تو اس کی تہہ میں ٹروڈو کی غلطیاں، زیادتیاں اور ناپسندیدہ فیصلے کم تھے اور کینیڈا میں اقتصادی بدحالی، کساد بازاری کے فیکٹرز نے پبلک کے غیر متعلق حصہ کو لبرل پارٹی کی ھکومت سے دور کرنے میں زیادہ کردار ادا کیا۔ پبلک کی اس بد دلی سے فائدہ اٹھانے والے کنزرویٹو تھے، اب اچانک یہ ہوا کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بھوت بوتل سے باہر نکل آیا۔ اس بھوت نے کینیڈا پر بیٹھے بٹھائے 25 فیصد ٹیرف تھوپنے سے لے کر کئی ناپسندیدہ اور کینیڈین عوام کو متنفر کرنے والی حرکتین کر ڈالیں۔ ان حرکتوں پر کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی نے تماشا دیکھا لیکن لبرل پارٹی کی حکومت نے اس پر سخت قوم پرست پوزیشن اختیار کی۔ جسٹن ٹروڈو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈا کو امریکہ میں ضم کر دینے کی بچگانہ دعوت سے لے کر ٹرمپ ٹیرفس تک ہر حرکت کا بہت مناسب، اوریجنلی کینیڈین تدبر اور تہذیب سے بھرا جواب دیا۔ صرف جواب ہی نہیں دیئے بلکہ اپنی پالیسیوں کو ٹرمپ کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب طریقہ سے مولڈ بھی کیا۔ اس سارے عمل نے پبلک کو حیرت ناک خوشگواریت سے دوچار کیا، ٹرمپ سے گھبرانے کی بجائے لوگوں کو جسٹن ٹروڈو کی پوزیشن مین تحفظ کا احساس ہوا۔ امریکی ٹیرف، '51 ویں ریاست' کی دھمکیاں کینیڈا کو ہلا نے میں درحیقیقت ناکام رہین تو اس کا ایک اہم فیکٹر جسٹن ٹروڈو کی مینیجمنٹ ہی تھی۔ ٹروڈو نے ٹرمپ کا مقابلہ اس وقت کیا جب وہ خود آئندہ الیکشن مین وزیراعظم کا امیدوار اور لبرل پارٹی کا لیڈر نہ ہونے کا واضح اعلان کر چکے تھے۔ لبرل پارٹی کے اندر ٹروڈو کے ہٹنے سے خالی ہونے والے آفسز تک پہنچنے کی دوڑ نے بھی پارٹی کے اندر سرگرمی اور پارٹی کے باہر اس کے امیج کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
ابھی تک، ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی لہر کئی عوامل کی وجہ سے بدل رہی ہے، بشمول ٹروڈو کے مستعفی ہونے کا فیصلہ، لبرل قیادت کی دوڑ جس نے پارٹی کی رفتار کو بڑھایا، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈا کے خلاف بار بار دھمکیاں۔
حالیہ سروے کے مطابق، لبرلز نے کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ فرق کو کم کر دیا ہے، پچھلے ہفتے شائع ہونے والے ایک پول میں 2021 کے بعد پہلی بار پارٹی کو ٹوریز پر برتری کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔
ٹورنٹو یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر سیمرا سیوی نے کہا، "دو مہینے پہلے، لبرلز تباہی کے دہانے پر تھے، اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سیاسی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔"
قدامت پسند پیغام رسانی
ایک ہی وقت میں، کنزرویٹو پارٹی کینیڈا کی سیاست کے ٹروڈو کے بعد کے دور میں اپنے پیغام رسانی پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
بریکر نے کہا، "گزشتہ دو سالوں کے دوران کنزرویٹو پارٹی جس کام میں کامیاب رہی وہ لبرل ریکارڈ کو اس انداز سے نمایاں کر رہی تھی کہ کینیڈین پبلک نے ہر اس کام کی مخالفت کرنا سیکھا جو لبرلز کر رہے تھے۔"
کنزرویٹوز نے خاص طور پر ٹروڈو کو کامیابی کے ساتھ بدنام کیا تھا۔ "لیکن پھر اچانک یہ وہا کہ وزیر اعظم چلے گئے ہیں، ٹھیک ہے آپ انہیں ہٹوانے میں کامیاب ہوئے لیکن اب۔۔۔ آپ ان پر الزام لگانا جاری نہیں رکھ سکتے۔"
لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، کینیڈین لبرل پالیسیوں کے گزشتہ 10 سالوں میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی نسبت کم دلچسپی لے رہے ہیں – خاص طور پر جیسا کہ اس کا تعلق ریاستہائے متحدہ سے ہے۔
ٹرمپ فیکٹر
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ درحقیقت، 20 جنوری کو ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وائٹ ہاؤس سے سامنے آنے والے بیانات نے شاید لبرل پارٹی کی بحالی میں سب سے اہم عنصر کے طور پر کام کیا ہے۔
مہینوں تک، امریکی صدر نے دھمکی دی تھی کہ وہ کینیڈا سے درآمدات پر بھاری محصولات عائد کر دیں گے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہوا تو کینیڈا کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔
ٹرمپ نے اس ہفتے اس منصوبے کی پیروی کی ، اس کے بڑے پیمانے پر، زیادہ تر کینیڈا کے سامان پر 25 فیصد ٹیرف منگل کے اوائل میں نافذ ہوئے۔جسٹن ٹروڈو کی قیادت میں اوٹاوا نے تجارتی جنگ کے خدشات کو ہوا دیتے ہوئے، امریکہ کے خلاف باہمی اقدامات کا جواب دیا ہے۔
کینیڈا کو 51 ویں امریکی ریاست بنانے کے لیے ٹرمپ کے بار بار احمقانہ دباؤ کے ساتھ کینیڈا پر ٹیرف ن تھوپ دینے نے بڑے پیمانے پر غصے اور کینیڈا کی قوم پرستی میں اضافے کو ہوا دی۔ بہت سے کینیڈین اب کینیص کے "اتحادی دم چھلا" تاثر کو ختم کرنے اور امریکہ سے الگ ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جسے وہ اب ایک مستحکم اتحادی کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں، کیونکہ واشنگٹن اب ٹرمپ کے کنٹرول میں ہے اور ٹرمپ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔
اوٹاوا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جینیویو ٹیلیر نے کہا کہ کینیڈا کے انتخابات میں نام نہاد "بیلٹ سوال" بلاشبہ یہ ہوگا کہ کون سی پارٹی ٹرمپ کو جواب دینے اور کینیڈا-امریکہ تعلقات کو سنبھالنے کے لیے بہترین ہے۔
اب کینیڈا کی اپنی اقتصادی سورتحال کم اہم، اس صورتحال میں لبرل پارٹی کی حکومت کا کردار کم اہم اور امریکہ کے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں اور اقدامات کا مقابلہ کرنے اور کینیڈین پبلک کو ٹرمپ سے بچانے کا سوال زیادہ اہم ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ کیا لبرل کنزرویتوز کو ہرا سکتے ہیں، بلکہ اب یہ معاملہ اقتصادی قیادت کے بارے میں زیادہ ہے، اب معاملہ یہ ہے کہ آپ [امریکیوں] کو کیسے جواب دیتے ہیں؟"
کنزرویٹوز نے جنگی انداز سے ٹرمپ کی مخالفت کی ہے، لیکن کچھ کینیڈین اب سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔
"کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر پوئلیور Poilievre کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اکثر وہی باتیں کہتے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہوتی ہیں،" ان مین اور ٹرمپ میں "بہت سی چیزیں مماثل ہیں۔" مثلا اب وہ بھی "کینیڈا فرسٹ" کہہ رہے ہیں۔