تازہ ترین؛ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو لوک سبھا میں اکثریت ملنا محال ہو رہا ہے

4 Jun, 2024 | 10:06 PM

سٹی42: منگل کی رات بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت کے لئے صدموں کی رات اور انڈیا الائنس کے حامیوں کے لئے حیرت ناک خوشی کی رات بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایگزٹ پولز کے اندازوں کے برعکس آج شب ساڑھے نو بجے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں واضح برتری نہیں لے پائے گی۔

بھارت میں جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات  کے ووٹوں کی گنتی آگے بڑھ رہی ہے دنیا کے لئے یہ حیرت ناک صورتحال سامنے آ رہی ہے کہ عام توقعات کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ منگل کی شام تک  بھارت کے الیکشن کمیشن کی ووٹوں کی گنتی سے سامنے آنے والے حقیقی رجحانات  کو لے کر الجزیرہ نیوز نے  رات ساڑھے نو بجے یہ سٹوری پوسٹ کی ہے کہ بھاجپا کا لوک سبھا الیکشن میں واضح برتری حاصل کر لینا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔  منگل کی شام تک بھارت کی سیاست کے کئی بڑے برج الٹ چکے ہیں اور بہت سے مزید برج الٹتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ 

بھارت کی  لوک سبھا میں 543 ارکان ہوتے ہیں اور حکومت بنانے کے لئے  272 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

الجزیرہ نیوز نے بھارت کے میڈیا میں عمومی قیاس آرائیوں اور سیاسی جماعتوں کی اپنے بارے میں پیش گوئیوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ  اپنے اتحادیوں کے ساتھ، بی جے پی کو اب تک اپنے اتحادیوں کے  ساتھ مل کر لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کی توقع تھی۔  کانگریس پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن کے " انڈیا اتحاد " کو   لوک سبھا میں 200 سے زیادہ سیٹیں حاصل ہونے  کا اندازہ لگایا گیا تھا۔


بھارت کے ایگزٹ پولز  منگل کی شام تک بھی  دس سال سے پرائم منسٹر نریندر مودی کی بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کو  ہی اکثریت ملتی دکھا رہے ہیں لیکن الجزیرہ کی رپورٹ ایک مختلف تصویر دکھا رہی ہے۔ 


منگل کی شب سامنے آنے والی صورتحال  2019 کے  الیکشن نتائج سے متضاد ہے، جب بی جے پی کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے 353 سیٹیں جیتیں، جن میں سے 303 اکیلے بی جے پی نے حاصل کیں۔

اس تبدیلی کے مرکز میں سیاسی جھٹکوں کا ایک سلسلہ تھا جس نے ہندوستان کے سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دی ہے۔  ووٹوں کی گنتی سے کچھ بڑے سرپرائز   اور پریشانیوں کا پتہ لگتا ہے، جیسا کہ وہ اب دھیرے دھیرے سامنے آ رہے ہیں۔

یوپی: وارانسی میں سخت دوڑ اور سماج وادی پارٹی  (ایس پی) کا عروج
اتر پردیش بھارتی جمہوریہ کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور حالیہ لوک سبھا الیکشن مین اسی ریاست پر بھاجپا کے تمام خوابوں کا دار و مدار تھا۔  2017 سے بی جے پی کے زیر انتظام ریاست میں کل 80 پارلیمانی حلقے ہیں۔ 240 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہونے کے ناطے، اس کے پاس یہ تعین کرنے کی کلید ہے کہ نئی دہلی میں کون حکومت کرتا ہے۔ نریندر مودی اور کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی دونوں  اس ریاست کے مختلف حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

2019 میں، یو پی سے  این ڈی اے نے 64 سیٹیں حاصل کیں جن میں سے اکیلے بی جے پی نے 62 پر قبضہ کیا۔ کانگریس نے صرف ایک سیٹ جیتی۔ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے 10 اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) نے پانچ جیتیں۔

لیکن 2024 کا نتیجہ بہت مختلف نظر آتا ہے۔ بھارتی وقت کے مطابق رات 9 بجے  تک، ایس پی 37 سیٹوں پر آگے تھی، اور کانگریس چھ دیگر سیٹوں پر - انڈیا اتحاد کے لیے کل 43 سیٹیں بنتی دکھائی دے رہی تھیں۔

اپتر پردیش میں کیا ہوا؟؟

بھارتی سیاست کے سربرآوردہ تجزیہ کار اور ہندی زبان کے پروفیسر اپوروانند نے اتر پردیش کے الیکشن کے متعلق  کہا کہ اپنے معمول کے ووٹر بیس کو محفوظ کرنے کے علاوہ – جو کہ مسلمان اور یادو برادری پر مشتمل ہے – سماج وادی پارٹی  (ایس پی)نے دیگر پسماندہ برادریوں میں اپنے اثر و رسوخ میں  توسیع کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 35 سال سے کم عمر کے لوگوں میں بی جے پی کے  لئے بڑھتی ہوئی  بے اطمنانی نے بھی سماج وادی پارٹی کی برتری میں حصہ ڈالا، اس فیصلہ کن فیکٹر   کے سبب بھارتیہ جنتا پارٹی کا یو پی کی ریاست میں اپنا اثر و رسوخ کھو تا دکھائی دے رہا ہے۔

پروفیسر اپوانند نے مزید کہا، ’’میں یوپی کے تمام حصوں کے نوجوانوں سے بات کر رہا ہوں، اور وہ بی جے پی سے ناراض ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ صورتحال  "ہندو قوم کے یوٹوپیا "کے وہم کے  ساتھ نوجوانوں کی عدم مطابقت کی وجہ سے ہے جس پر بی جے پی نے زور دینے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی حقیقت نے ووٹروں کو متاثر کیا۔

پروفیسر اپوانند نے کہا کہ "لوگ حیران تھے، 'ایک ہندو قوم کے پورے یوٹوپیا کا کیا فائدہ اگر وہ عزت سے نہیں رہ سکتے۔' 

مودی کی جیت کا مارجن سکڑ گیا، راہول کو بھاری مارجن سے جیت مل گئی

مودی کے حلقہ وارانسی میں، کانگریس کے امیدوار اجے رائے نے وزیر اعظم مودی کی 2019 کی جیت کے مارجن کو نمایاں طور پر کھا لیا ہے۔ مودی نے 2019 میں 500,000 ووٹوں سے یہ سیٹ جیتی تھی۔ اس بار ان کی جیت کا فرق 152,000 ووٹوں کا  رہ گیا۔

اس کے برعکس، راہول گاندھی نے اپنے حلقہ انتخاب رائے بریلی میں 390,000 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

رائے بریلی کے قریبی حلقہ  امیٹھی میں بی جے پی کی سمرتی ایرانی بھی کانگریس کی کشوری لال سے ہار گئیں۔ اس علاقہ سے پہلے گاندھی فیملی کے ارکان الیکشن لڑتے تھے لیکن بھاجپا کے طوفانی عروج کے دوران ان سے یہ حلقہ چھوٹ گیا۔   2019 میں، سمرتی ایرانی نے گاندھی خاندان کا یہ گڑھ جیت لیا تھا، راہول گاندھی کو، جو 2014 سے اس نشست پر فائز تھے، کو 2019 میں سمرتی ایرانی نے اس حلقہ میں  55,000 ووٹوں سے ہرا دیا تھا۔

فیض آباد ، ایودھیاکے عوام نے بی جے پی کو سزا دی؟

اس دوران بی جے پی 33 سیٹوں پر آگے تھی، اس کے اتحادی تین دیگر سیٹوں پر آگے ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ بی جے پی فیض آباد حلقے میں پیچھے چل رہی تھی، جو ایودھیا میں رام مندر کا گھر ہے جسے مودی نے جنوری میں  تعمیر کرنے کا آغاز  کیا تھا۔ بابری مسجد کے کھنڈرات پر بنایا گیا  یہ مندر جسے 1992 میں ہندو ہجوم نے منہدم کر دیا تھا، بی جے پی کی مہم کا مرکز تھا۔

سیاسی تجزیہ کار اور ہندی کے پروفیسر اپوروانند نےبتایا کہ ایس پی اور کانگریس کے درمیان شراکت ماضی کے مقابلے اس بار بہتر رہی، انہوں نے مزید کہا کہ ایس پی لیڈر اکھلیش یادو اور گاندھی کے درمیان کیمسٹری زیادہ مضبوط تھی "اور یہ نیچے تک چھید گئی"۔

بھاجپا کو اب تک برتری حاصل ہے، ایسوی ایٹڈ پریس

ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی وقت کے مطابق رات دس بجے بتایا کہ  ہندوستان کے الیکشن کمیشن کی طرف سے اب تک  رپورٹ کی گئی ووٹوں کی گنتی میں مودی کی بی جے پی کی زیرقیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ( قومی جمہوری اتحاد ) کو آگے دکھایا جا رہا ہے۔ رات دس بجے تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق لوک سبھا کی 209 نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی آگے ہے اور  انڈیا اتحاد نے اب تک 177  نشستیں جیتی ہیں۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی انڈیا اتحاد کا حصہ ہے، 81  نشستیں کانگریس کو حاصل  ہو چکی ہیں۔ 

بھارتی الیکشن کمیشن کے مراکز مین ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ اکثریت کے لیے کل 272 نشستیں درکار ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آج  علی الصبح  تک بیشتر ووٹ گنے جا چکے ہوں  گے اور بھارت میں آئندہ حکومت بنانے والی پارٹیوں کی پوزیشن واضح ہو چکی ہو گی۔ 

مغربی بنگال: ترنمول  کانگرس نے اپنا قلعہ بچا لیا
بھاری سیاست کی دوسری کلیدی مشرقی ریاست  مغربی بنگال پر اس وقت اپوزیشن اتحاد "انڈیا الائنس" کی جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس (AITC) پارٹی کی حکومت ہے، جسے عام طور پر TMC کے نام سے جانا جاتا ہے،  ترنمول کانگرس راہول گاندھی کی آل انڈیا کانگرس کے ساتھ ازلی مخالفت کے زیر اثر  انڈیا الائنس مین آخری دن تک پیچھے پیچھے رہی۔ اسے اپوزیشن کی ہچکچاہٹ کا شکار رکن سمجھا جاتا رہا ہے۔ آج منگل کی شب ترنمول کانگرس کی بنگال میں جیت نمایاں ہو رہی ہے۔ ہچکچاہت اور پیچھے پیچھے رہنے کے باوجود ممتا بینر کی جی پارٹی نے نہ صرف اپنا قلعہ بچا لیا بلکہ بھاجپا کو دہلی کے تخت سے دور کرنے میں اپنا حصہ بھی بخوبی ڈال دیا ہے۔ 

بی جے پی نے اس الیکشن میں مغربی بنگال کو جیتنے کے لئے بہت بڑی انویسٹمنٹ کی لیکن اسے خاطر خواہ رسپانس نہیں ملا۔ ہندوتوا کو ابھارنے والی تمام مہموں کے بعد اسے بنگال میں  2014 کے مقابلے 2019 کے انتخابات میں نمایاں بہتری ملی تھی۔ 2019 میں مغربی بنگال کی 42 پارلیمانی نشستوں میں سے 19 پر  بھاجپا نے کامیابی حاصل کی۔ ٹی ایم سی کو 22 جبکہ کانگریس کو دو سیٹیں ملیں۔ 

لوک سبھا کے حالیہ الیکشن میں  گنتی سے پہلے،  بھاجپا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایگزٹ پولز نے پیش گوئی کی تھی کہ بی جے پی ریاست کی اکثریتی سیٹیں جیت سکتی ہے، جس سے ٹی ایم سی کی تعداد کم ہو جائے گی۔

لیکن منگل کو وہ پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ آج رات  ٹی ایم سی 29 سیٹیں جیتنے کی راہ پر ہے،  بی جے پی کو صرف 12 سیٹیں ملنے کی امید ہے۔ باقی سیٹوں پر  راہول گاندھی کی کانگریس آگے ہے۔

کیرالہ: بی جے پی  کی  نسفیاتی جنگ اور سازشی تھیوریاں مسترد ہو گئیں
جنوبی ریاست کیرالہ طویل عرصے سے بائیں بازو کا گڑھ رہی ہے جہاں بی جے پی، اپنی ہندو اکثریتی سیاست کے ساتھ، جیتنے کے لیے  مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔

اس سال کیرالہ میں  تبدیلی آئی جب بھارتیہ جنتا  پارٹی کے سریش گوپی نے تھری سور حلقہ میں 74,686 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی اور کیرالہ سے بی جے پی کے پہلے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ بن گئے۔

تو  بی جے پی نے یہ کیسے کیا؟ جزوی طور پر، سیاسی تجزیہ کار اپوروانند نے کہا، "کیرالہ میں عیسائی برادریوں کے اندر اسلامو فوبک عناصر کے ساتھ اتحاد   اور تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے" بھاجپا نے کیرالہ میں آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ 

ہندو  بیک گراؤنڈ شہری  کیرالہ کی ریاست میں آبادی کا 55 فیصد ہیں۔ اس کے بعد مسلمان 27 فیصد اور عیسائی 18 فیصد ہیں۔ دونوں اقلیتی گروہ مل کر آبادی کا تقریباً نصف حصہ بناتے ہیں، جو انہیں انتخابات میں مضبوط قوت بناتے ہیں۔ لیکن کیرالہ میں مذہبی بیک گراؤنڈ کچھ بھی ہو،  زیادہ لوگ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، بی جے پی نے ہندو ووٹ حاصل کرنے کے علاوہ، ریاست کے مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرکے عیسائی ووٹ کے کچھ حصوں کو جیتنے کی کوشش کی ہے۔

تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند نے "لو جہاد" کے سازشی نظریہ کی طرف اشارہ کیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان مرد جان بوجھ کر ہندو  اور عیسائی برادریوں کی خواتین سے شادی کر رہے ہیں تاکہ انہیں اسلام قبول کروایا جا سکے۔ اس سازشی تھیوری کو بڑے  پیمانے پر رد کر دیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ اپوروانند نے اشارہ کیا، یہ "کیرالہ سے شروع ہوا" اور عیسائی پادریوں کے کچھ ارکان نے اسے بڑھاوا دیا۔ 

آج منگل کی رات یہ دکھائی دے رہا ہے کہ کیرالہ کے ووٹرز نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے مقامی اتحادیوں کی سازشی تھیوریوں کو مسترد کر دیا اور اسلامو فوبیا کے زیر اثر ووٹ دینے سے گریز کیا۔

’ذلت کی سیاست‘: بی جے پی مہاراشٹر کی سازش کیسے ہار گئی
بی جے پی اور اس کے اتحادی مغربی ریاست مہاراشٹرا میں بڑے نقصانات کے دہانے پر نظر آئے۔ یہاں  کانگریس اور اس کے شراکت داروں نے اہم فائدہ اٹھایا۔

تازہ ترین ووٹوں کی گنتی کے مطابق، اپوزیشن انڈیا اتحاد - جس میں کانگریس، شیوسینا اور ایس پی شامل ہیں - ریاست کی 48 میں سے 29 سیٹوں پر آگے ہے۔ کانگریس اکیلے 13 سیٹوں پر آگے تھی جبکہ بی جے پی 10 پر آگے تھی۔

 یہ نتائج حیران کن نہیں ہیں، حالانکہ ایگزٹ پولز نے مہاراشٹر ریاست میں بھی بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی بڑی جیت کی پیش گوئی کی تھی۔

 مہاراشٹر کے  نتائج کو گزشتہ پانچ سالوں میں  بی جے پی کی کارکردگی  اور مقامی  پارٹیوں اور ریاستی لیڈروں کو ذلیل کرنے کا ردعمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔  بی جے پی کی "ذلت کی سیاست" نے ووٹروں میں پارٹی کے لیے عدم اطمینان پیدا کیا۔

روایتی طور پر بی جے پی مہاراشٹر  کی مراٹھا قوم پرست  شیوسینا پارٹی کے ساتھ شراکت دار رہی ہے۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں، بی جے پی شو سینا اتحاد ٹوٹ گیا، اور ناقدین نے بی جے پی پر شیوسینا کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا الزام لگایا۔ شو سینا اس وقت انڈیا الائنس کا حصہ ہے اور بھاجپا کی سب سے بڑی مخالف۔

کرناٹک: بی جے پی جھک گئی، ٹوٹی نہیں
2019 میں، بی جے پی نے کرناٹک کے 28 پارلیمانی حلقوں میں سے 25 پر کامیابی حاصل کی جبکہ دو دیگر این ڈی اے سے وابستہ امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی۔ کانگریس نے کرناٹک میں صرف ایک سیٹ جیتی تھی۔

اگرچہ کانگریس نے گزشتہ سال ریاستی مقننہ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن ایگزٹ پولز نے 2019 کے نتائج   کی طرح یہاں بھاجپا کی جیت کی  پیش گوئی کی تھی، خاص طور پر  اس لئے بھی کہ بی جے پی نے علاقائی جنتا دل (سیکولر) پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی کر لیا تھا۔

تاہم آج ووٹوں کی گنتی آگے بڑھنے سے پتہ چلا کہ یہاں بی جے پی نے صرف 17 نشستیں حاصل کیں۔ جے ڈی (ایس) نے دو حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور کانگریس نے 10 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

بی جے پی کی بنیاد ڈھے گئی لیکن اثر ابھی ختم نہیں ہوا

تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند  کہتے ہیں کہ ، ’’بی جے پی کا مضبوط گڑھ اب بھی ساحلی ریاستوں جیسے بنگلور میں برقرار ہے، جہاں انہوں نے زمین نہیں کھوئی ہے،‘‘ اپوروانند نے کہا۔

 اہم ٹیک وے؟ اپوروانند نے کہا، ’’بی جے پی کی بنیاد ختم ہو گئی ہے لیکن اثر و رسوخ مکمل طور پر نہیں کھویا ہے۔

کرناٹک بی جے پی کے لیے اہم ہے۔ یہ واحد جنوبی ریاست ہے جو  2024 کے لوک سبھا الیکشن میں مودی کی پارٹی نے جیتی ہے۔

مزیدخبریں