دس ایسی فلمیں جنہیں دیکھنے والے پاگل ہوجاتے ہیں( قسط اول )

4 Jun, 2024 | 08:53 PM

عامر رضا

جی ہاں ایسی فلمیں جنہیں دیکھ کر آپ پاگل ہوسکتے ہیں، ان فلموں کی تفصیل سے پہلے یہ قصہ سنیں، یہ بھی ایک ایسی ہی فلم کا ہے ۔

 میں بھارتی ٹرین شتابدی پر سوار تھا، منزل تھی اب لاہور کا تقریباً جڑواں شہر امرتسر، جہاں سے مجھے پیدل واہگہ بارڈر کراس کرنا تھا اور پاکستان آنا تھا، میں لمبے سفر کی تھکان لیے ہوئے تھا ،کلکتہ سے دہلی راجدھانی ایکسپریس اور اب دہلی سے امر تسر، میرے سامنے والی نشست پر ماں بیٹی بیٹھیں تھیں، والدہ  40/ 45 برس کی جہاندیدہ عورت نظر آتی تھیں جبکہ بیٹی 20 /22 سال کی جوان لڑکی۔ دونوں خواتین میں پنجاب کے پانیوں کی وہ رعنائی موجود تھی جو ہر حسن پرست کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہے ۔ میں خاموش تھا  کہ اجنبی ملک کی اجنبی ٹرین میں اجنبی خواتین کے ساتھ کوئی کیسے بے تکلف ہو لیکن سامنے والی خاتون نے جب پنجابی لہجے میں پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں? تو میرا حوصلہ بڑھا۔ سفر بھی تو کاٹنا تھا، میں نے کہا لاہور تو دونوں ماں بیٹیوں کے چہروں پر ایسی خوشگوار حیرت ابھری کہ میں خود بھی حیران ہوگیا۔ خاتون کا تعلق لاہور سے بھارت گئی ایک فیملی سے تھا اور امر تسر سسرال تھے، لوجی پھر کیا تھا ماں بیٹی سے زندگی کے ہر موضوع پر بات ہوئی ، لاہوری امرتسری کھابے ، بازار ، تاریخی عمارات ، اندرون شہر ،فیشن ، ترقی ، فلم جی ہاں فلم اور جو فلم زیادہ زیر بحث رہی وہ تھی، امیتابھ بچن اور رانی مکھر جی کی شہرہ آفاق فلم " بلیک" خاتون بولیں تم بھارت آئے اور یہ فلم نہیں دیکھی! اب وی سی آر پر دیکھ لینا لیکن دو ایک رومال لیکر! کیونکہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی یہ فلم دیکھے اوراس کے دل کے تار آنسو کی صورت بجنے کا احساس نا دلائیں۔ میں اُن دنوں جواں اور لابالی طبیعت کا مالک تھا فوراً بولا فلم تسکین کے لیے دیکھی جاتی ہے، رومانیت پسندوں کے لیے رومانوی اور مار دھاڑ والوں کے لیے ایکشن مووی ہے اور میں یہ دونوں دیکھتا ہوں، رونے دھونے والی فلم سے بھلا میرا کیا کام ؟ لیکن وہ خاتون اور اُس کی گواہ بیٹی کہاں ٹلنے والے تھیں، مجھے کچھ نا کچھ سٹوری سُنا کر ہی دم لیا ،امرتسر آیا ہم نے خوش دلی کے ساتھ ایک دوسرے سے اجازت لی اور یہ فلم اور یہ فیملی یادونوں کسی تاریک سٹور روم میں بند ہوگئی ۔

 ضرورپڑھیں:’ہم اپنی کارکردگی کو نہیں بھول سکتے‘
اب اچانک کسی نے اس بند کوٹھری کے کواڑ کو بجایا تو یہ واقعہ دوبارہ تازہ ہو کر سامنے آیا ،ہوا کچھ یوں کہ جہلم کے ایک پڑھے لکھے سمجھدار ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے گرمیوں کی تعطیلات میں اساتذہ اکرام کو بیرون ملک بنی ایسی فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیا جس میں ایجوکیشن اور خاص کر ایسے افراد کی ایجوکیشن جو جسمانی و ذہنی معذوری کا شکار ہوں کو پڑھانے کے متعلق تھا، سوشل میڈیا اور روائتی میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ اس خبر کو لیا اور خبر بنائی کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ٹیچرز کو بھارتی فلمیں دیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ ہم ٹھہرے سُنی سنائی والے، ہم نے اپنا کان دیکھنے کے بجائے کتے (خبر)کے پیچھے  دوڑ لگادی ،ہر کوئی سوشل میڈیائی صحافی بن گیا اور لگا ڈسٹرکٹ آفیسر کے لتے لینے، یہاں تک کہ متعلقہ ڈی سی نے بھی اپنی کم علمی اور ناقص معلومات کا ثبوت دیا اور خبر کے مطابق اس نوٹیفیکیشن کو واپس لینے پر اصرار کیا دباؤ کہاں ایک سرکاری ملازم سہتا سو یہ نوٹیفیکشن واپس لے لیا گیا" بیچارہ آئنے بیچتا تھا اندھوں کے شہر میں"۔
اب میں ذرا مختصر تعارف کرادوں اُن فلموں کا جو تجویز کی گئیں تھیں، اُن اساتذہ کو جو آج بھی الف انار ،بے بکری اور دو دونی چار پڑھ  پڑھا رہے ہیں، ہمارے دولے شاہ کے چوہے تعلیمی نظام نے مزید دولے شاہ کے چوہے ہی بنائے ہیں اور کچھ نہیں یہاں بچہ سرکاری سکول میں داخل ہوا وہاں اسے لوہے کا ایک خول پہنا کر رٹا سسٹم پر لگا دیا جاتا ہے اور جو اس رٹے  میں زیادہ ماہر ہوجاتا ہے وہ سی ایس ایس کر جاتا ہے اور افسر لگ کر وہی کرتا ہے جو جہلم میں ایسے ہی ایک دولے شاہ کے  (سی ایس پی )چوہے نے کیا ۔
دی گئی ان فلموں میں سے بیشتر میں نے ذاتی طور پر دیکھ رکھی ہیں اور کچھ میں ان چھٹیوں میں اپنی فیملی کے ساتھ دیکھوں گا ، اس حوالے سے پہلی فلم ہے " تارے زمین پہ " عامر خان پروڈکشن کا یہ ماسٹر پیس ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جو صحیح سے لفظوں اور اعداد کو سمجھ نہیں پاتا وہ ایک جنیاتی بیماری کا شکار ہوتا ہے جسے ایک آرٹ ٹیچر(عامر خان) کمزوری کو پہچانتے ہوئے اس کے اندر چھپے آرٹسٹ کو کھوج نکالتا ہے اور یوں اسے ایک کامیاب آرٹسٹ بناتا ہے جو سکول اسے رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا وہی اسے اپنا فخر قرار دیتا ہے۔ دوسری فلم ہے  " ہچکی " اس فلم میں مرکزی کردار رانی مکھر جی نے ادا کیا ہے فلم میں وہ ایک ایسی استاد ہوتی ہیں جو ہچکی کی مریضہ ہوتی ہیں اور وہ اپنی کمزوری کو کیسےقابو پاتی ہیں اور تعلیمی میدان میں کیا کچھ ہے جو حاصل نہیں کرتیں اس فلم کا سبق بھی اپنی کمزوری کو طاقت میں کیسے بدلا جاتا ہے؟ بتایا گیا ہے ، تیسری فلم ہے " بلیک" جس کا ذکر میں نے ٹرین والے قصے میں کیا تھا اس میں بھی ایک اندھی گونگی  بہری لڑکی کو ایک بوڑھا استاد جینے کا ہنر سکھاتا ہے ۔
 جاری ہے

 ضروری نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر
 

مزیدخبریں