( سٹی42)ذیابیطس سے بچاؤ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے ماہر ذیابیطس پروفیسر ڈاکٹر عامر خان نے بتادیا۔
تفصیلات کے مطابق ذیابیطس ایک مہلک بیماری ہے جو دیگر جان لیوا امراض کا بھی سبب بنتی ہے، یہ ایک ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان بدقسمتی سے دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے جہاں ہر دسواں شخص ذیابیطس کے مرض کا شکار ہے۔ اس وقت ملک میں 9 ملین سے زائد افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جسمانی محنت کی کمی، موٹاپا اور غیر متوازن غذائیں وہ عوامل ہیں جن کے باعث ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں اس خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر فوری طور پر اس مرض کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ 25برسوں میں یہ تعداد 14ملین تک بڑھنے کا امکان ہے۔
اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مارننگ شو "مارننگ وِد فضا" میں ماہر ذیابیطس پروفیسر ڈاکٹر عامر خان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کی علامتیں اکثر واضح یا ظاہر نہیں ہوتیں۔ اگر علامتیں ظاہر بھی ہوں تو بہت معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں، جیسے پیاس لگنا ، بدن میں پانی کا کم ہو جانا (ڈی ہائیڈریشن)، پیشاب کی کثرت ، دھندلا نظر آنا، تھکن اور سستی۔ یہی وجہ ہے کہ مرض کی تشخیص عموماً اسی وقت ہوتی ہے جب معمول کا طبی معائنہ کروایاجا رہا ہویا کسی پیچیدگی کی صورت میں میڈیکل چیک اپ کیا جا رہا ہو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض یا آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخلے کے دوران ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ذیابیطس کے اسباب میں تھکاوٹ کا احساس،بھوک اور پیاس میں اضافہ،پیشاب کی زیادتی،ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ،انفیکشن کا با ر بار ہونا،بینائی میں دھندلاپن،زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا اور خشک کھردری جلد/خارش،جنسی مسائل،چالیس برس سے زائد عمر ، زائد وزن رکھنے ولے افراد، خاندان کے دیگر افراد میں ذیابیطس موجود ہونا، خواتین جن کو دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، خواتین جنہوں نے 9پونڈ سے زیادہ وزن کے بچے کو جنم دیا ہو یا ہائی بلڈ پریشر کے مریض میں عموماً پائے جاتے ہیں لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
نقصانات :
ذیابیطس کے نقصانات میں ایک قسم نظامِ ہضم کی خرابی ہے کیونکہ ذیابیطس تیزابیت بڑھاتا ہے، اس لیے ذیابیطس کے مریض اکثر ریح اور قبض کی شکایت کرتے ہیں، لہذا ان کی بھوک کم ہو جاتی ہے۔ دراصل بھوک ہوتی ہے مگر تیزابیت اس احساس کو کم کر دیتی ہے یوں معدے کی دیواریں کمزور ہوجاتی ہیں۔ دوسری قسم دل کی کمزوری ہے، ذیابیطس میں خون کے جمنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں خون شریانوں اور وریدوں میں جمنے لگتا ہے۔ جب یہ گاڑھا خون قلب میں داخل ہوتاہے تو قلب کو اسے دھکیلنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جس سے فشارِ خون بڑھتا ہے اور رفتہ رفتہ قلب کی ساخت بگڑنے لگتی ہے۔ تیسری قسم جگر کی خرابی ہے ذیابیطس بغیر شراب کے جگر میں چربی پیدا کر دیتا ہے، یوں خون کے اجزاء کا توازن خراب ہوجاتا ہے جبکہ چوتھی نظام ِ اعصاب کی خرابی ہے اعصاب کے لیے ذیابیطس ’ زہر‘ کا کام کرتی ہے، کبھی اعصابی درد جو تمام جسم میں پھیلنے والے اعصاب کی دکھن سے ماخوذ ہے کا سبب بنتی ہے، کبھی ہاتھ پاؤں کی انگلیوں ضائع کرنے کا باعث بنتی ہے۔ نہ مندمل ہونے والے زخم پیدا کرنا ذیابیطس کی علا مت ہے۔ کبھی آنکھ کی ’رییٹی نا ‘کوخراب کرتی ہے یوں ’ڈایابیٹک ریٹینوپیتھی‘ کا باعث بنتی ہے، کبھی پٹھوں کے درداور تناؤ کا سبب بنتی ہے اور ’ ڈایا بیٹک نیوروپیتھی ‘ کے نام سے موسوم ہوجاتی ہے، کبھی پھپوندی اور دیگر جراثیم کی افزائش میں مدد کرتی ہے اور’ ڈایابیٹک سور‘ کہلاتی ہے، اور کبھی چھپی ہوئی رہتی ہے یعنی تشخیصِ علامات ظاہر نہیں ہوتیں، مگر جسم کو برباد کرنے میںمصروف رہتی ہے اور کافی عرصے بعد آلاتِ تشخیص کی زد میں آتی ہے، جسے’ لیٹینٹ ڈایا بیٹیز‘ کہتے ہیں۔
علاج :
اس کے علاج کیلئے اور خون کو پتلا رکھنے کے لیے’بید سادہ‘ یا ’ادرک‘ یا ‘ایسی ٹائیل سیلی سائیلک ایسڈ‘ کا استعمال کریں۔ ذیابیطس کی مقدار کو معتدل رکھنے کے لیے دار چینی یا پنیرڈوڈہ کا قہوہ پئیںیا گولی ایمپاگلا فلوزن پانچ سے 10 ملی گرام کھائیں۔ وٹامن ڈی اور ای کی کیپسول کا استعمال کریں۔ ماء العسل یعنی شہدکا پانی نہار منہ پئیں جبکہ چاول، آلو، بھنڈی، اروی، چنے کی دال، ارہر کی دال سے پرہیز کریں ۔ ہفتے میں ایک بار کھا سکتے ہیںتاکہ ان میں موجود لحمیات (پروٹین) سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔
دوسری جانب غذا میں تبدیلی لاکر بھی اس مرض سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، دلیہ: ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دلیہ بہترین ناشتہ ہے، یہ معدے میں غذا میں موجود گلوکوز کو جذب کرنے کی رفتار سست کرکے شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے۔ سبز پتوں والی سبزیاں: پالک، گوبھی اور سلاد کے پتے جیسی سبزیوں میں کیلوریز اور کاربوہائیڈریٹ کافی کم مقدار میں موجود ہوتے ہیں، ان سبزیوں کو روزانہ کھانے سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ 14 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ شکر قندی:امریکی ذیابیطس ایسوسی ایشن کے مطابق شکرقندی انسولین کی مزاحمت کو کم کرتی ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم رکھتی ہے، اس میں زیادہ مقدار میں موجود فائبر دل کی متعدد بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ مچھلی: مچھلی میں جسم کے لیے اہم فیٹی ایسڈز موجود ہوتے ہیں جو کہ بلڈ شوگر کی سطح کو معمول پر رکھنے کے ساتھ جسمانی سوجن کو کم کرنے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم کرنے کے لیے بھی اہم ہیں، ذیابیطس کے مریض کو ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کا استعمال ضرور کرنا چاہیے کیونکہ یہ گردوں کی بیماری کے خلاف بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بادام: کھانے کے بعد بادام استعمال کرنے سے جسم میں گلوکوز اور انسولین کی سطح قابو میں رہتی ہے، بادام جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ یہ کھانے کے بعد آپ پیٹ بھرا ہوا محسوس کریں گے۔
ذیابیطس کے زخم بہت مشکل سے ٹھیک ہوتے ہیں تاہم اب نئے پالیمر کی مدد سے ان دیرینہ ناسور کو مندمل کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ شوگر کے مریضوں میں خون کی رگیں اور بہاؤ دونوں ہی متاثرہوتے ہیں، اس طرح زخم پر کھال نہیں بنتی اور یوں زخم رِستا رہتا ہے اور بڑی مشکل سے ٹھیک ہوتا ہے لیکن اب زخم بھرنے کے لئے 315 مختلف اقسام کے پالیمر کو مرہم پٹی کے لئے آزمایا جاچکا ہے، اس دوران جلد مندمل ہونے کے تمام معاملات کا بغور جائزہ لیا گیا۔
اُنہوں نے بتایا کہ ماہرین نے بعض جانوروں کے زخم پر پی ٹی ایچ ایف یو اے لپٹے خردبینی ذرات ایک پالیمر پر لگائے اور اسے زخم پر رکھا، ابتدائی 96 گھنٹے میں عام پٹی کے مقابلے میں فائبروبلاسٹ جمع ہونے میں تین گنا تیزی دیکھی گئی جبکہ زخم بھرنے کی رفتار 80 فیصد تک بڑھی، جانوروں پر حوصلہ افزا نتائج کے بعد توقع ہے کہ جلد ہی اسے ذیابیطس کے زخموں کی پٹی پر لگایا اور آزمایا جائے گا۔ اُن کے مطابق اس پالیمر کی تیاری بہت آسان اور کم خرچ ہے اور اسے ذیابیطس کے مریضوں کے دیرینہ زخموں کے علاج میں بہت مدد مل سکے گی۔