ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ نے سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کے حکومتی منصوبے کے خلاف درخواست پردرخواست گزار ٹیچرز یونین کے نمائندوں کی فوری حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی ، عدالت نے پنجاب حکومت سے 20 جون کو تفصیلی جواب طلب کرلیا.
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے آل ٹیچرز الائنس ٹیچرز اینڈ پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر محمد رمضان سمیت دیگر کی درخواست پر سماعت کی, پنجاب حکومت کی جانب سے اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل محمد عثمان خان پیش ہوئے, درخواست گزاروں کی جانب سے چوہدری عمر حیات کامران ایڈوکیٹ سمیت دیگر وکلاء پیش ہوئے۔
درخواست گزار وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت طلباء کی کم تعداد والے سکولوں کو پرائیویٹ افراد کو دے رہی ہے، سکول پرائیویٹ افراد کے حوالے کرنے سے بچے مفت تعلیم سے محروم ہو جائیں گے، انہوں نے عدالت سے استدعا ہے کہ حکومتی فیصلے پر فوری حکم امتناع جاری کیا جائے۔
اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل محمد عثمان خان نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سکول کسی پرائیویٹ ادارے کو نہیں بلکہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن محکمہ تعلیم کا ذیلی ادارہ ہے ، یہ سکول پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلیں گے، جس پر حکومت پنجاب کا کنٹرول ہو گا، کوئی بلڈنگ کسی پرائیویٹ فرد کی ملکیت نہیں ہو گی، تمام طلباء کا خرچہ حکومت پنجاب برداشت کرے گی، کتابیں بھی مفت ملیں گی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ اگر معائدے کی خلاف ورزی ہو گی تو حکومت کے پاس معائدہ منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا، آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت بچوں کو تعلیم کی بہترین سہولیات فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے، لاپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2016 میں 3 لاکھ اور اب سوا 6 لاکھ بچہ زیر تعلیم ہے۔
درخواست گزار وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ سکولوں کو پرائیویٹ کررہے ہیں، استدعا ایک ہی استدعا ہے کہ فوری حکم امتناعی جاری کیا جائے جس پر جسٹس راحیل کامران شیخ نے درخواست گزار وکلاء سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا تفصیلی جواب آنے سے قبل کیسے حکم امتناع جاری کردیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 20 جون تک ملتوی کر دی۔