ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وزیر اعلیٰ پنجاب نے پولیس افسران کی کارکردگی جانچنے کیلئے ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“مقررکردیئے

وزیر اعلیٰ پنجاب نے پولیس افسران کی کارکردگی جانچنے کیلئے ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“مقررکردیئے
کیپشن: Maryam Nawaz, File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے صوبے بھر کے پولیس افسران نے وزیر اعلیٰ آفس میں ملاقات کی۔

وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے پولیس افسران کی کارکردگی جانچنے کے لئے ”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“KPI مقرر کر دیئے ہیں، جس میں عوامی شکایات، ایف آئی آر، فرد جرم، نوگوایریا، سرچ آپریشن اور غیر معمولی کارکردگی دکھانے پر نمبر ملیں گے۔ ٹریفک، پتنگ بازی، فائرنگ کی روک تھام، سنگین جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری، کھلی کچہری، اختراعی اور منفرد اقدامات سے پولیس افسروں کو اضافی نمبر ملیں گے۔”کی پرفارمنس انڈیکیٹرز“ سے ٹاسک پورا نہ ہونے پر پولیس افسروں کے نمبربھی کاٹیں جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے پولیس افسران کو ایس ایچ اوز اور دیگر افسران کی کڑی نگرانی کا ٹاسک دے دیا۔ وزیر اعلیٰ نے محرم میں پولیس افسران کو اہل تشیع علماء کے گھرمیں جاکر ملاقاتیں کرنے کی ہدایت کی اور مساجد میں نماز جمعہ کے بعد لوگوں سے ملنے کا بھی حکم دیا۔وزیر اعلیٰ مریم نواز نے عوام میں احساس تحفظ اجاگر کرنے کے لئے گشت بڑھانے اوربین الصوبائی چیک پوسٹوں پر اچھی ساکھ والے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کاحکم دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے پولیس افسران کو اپنی فرنٹ لائن فورس قرار دیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا پولیس افسران سے خطاب 

مریم نواز نے پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عمرؓ  کندھے پر بوری رکھ کر خود جاتے تھے، وزیراعلیٰ کیوں عوام کے درمیان نہیں جاسکتا۔ہم سب عوام کے حقوق کے لئے اللہ تعالی کو جوابدہ ہیں۔جرم سرزد ہونے سے پہلے ہی تدارک کے اسباب ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ سختی کا رویہ عوام نہیں مجرمو ں کے ساتھ اپنایا جائے۔مجرم کو پتہ ہوناچاہیے کہ پکڑے گئے تو سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ایس ایچ او کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے پولیس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے تواچھے افسر لگائے جائیں۔ جرائم کے شکار لوگ سڑکیں، مفت ادویات اور ہر چیز بھول کر حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

 وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ 4ماہ میں کسی آر پی او،ڈی پی او اور ایس ایچ او کی سفارش نہیں کی اور نہ ہی کسی رکن اسمبلی کے کہنے پر پولیس افسر لگائے۔ایم پی اے میرا پاور ہاؤس ہیں لیکن میرٹ کے لئے سب کو ناراض کیا۔جلسہ عام میں کہا تھا ارکان اسمبلی پولیس والو ں کی سفارش کرنا چھوڑ دیں،امن بحال ہوجائے گا۔سیاسی مداخلت سے خرابیاں جنم لیتی ہیں، بہت پریشر لیا لیکن فل سٹاپ لگا دیا۔انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن کے لئے مانیٹرنگ سسٹم وضع کرنے سے کارکردگی میں بہتری نظر آرہی ہے۔مانیٹرنگ کا مقصد کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ کرائم ریٹ کو زیرو پر لانا ہے۔ایس ایچ اوز کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کا نظام بھی وضع کیا جائے۔ معمول کی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی، سب کو مل کر ٹیم کی طرح کام کرنا ہوگا۔صوبے میں پولیس کا کردار سب سے اہم اور ضروری ہے۔

 وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ احساس ذمہ داری بیدار ہوجائے تو کارکردگی خود بخود بہتر ہوجاتی ہے۔بچوں، خواتین اور کمزور طبقات پر ظلم دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہوں۔بچے، خواتین اور کمزور طبقات میری ریڈ لائن ہیں،کوئی ظلم و زیادتی برداشت نہیں۔بچوں کے معاملات میں سخت ایف آئی آر درج کی جائے اور بہترین تفتیش ہونی چاہیے۔پولیس کی ضروریات پورا کررہے ہیں، ٹیکنالوجی مہیا کررہے ہیں لیکن اب کام چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پولیس فورس دل کے قریب ہے، اسی لئے یونیفارم پہن کر یکجہتی کا پیغام دیا۔اچھے کام اور رویے سے پولیس فورس کی نیک نامی ہوگی۔دنیا بھر میں زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کرائم ریٹ کو نیچے لانے کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ہر جگہ کرپشن ہے لیکن پولیس میں کالی بھیڑیں زیادہ ہیں،پولیس کے ساتھ کرپشن کا لفظ جڑنا تکلیف دہ ہے۔کون پیسے لیتا ہے سب کو پتہ ہوتاہے، بدنامی کا باعث بننے والوں کو وارننگ نہ دیں بلکہ فارغ کر دیں۔ بعض لوگ جہاں بھی لگیں مال بنانے سے باز نہیں آتے۔کھلے عام رشوت لینے والے پولیس او رحکومت کو بدنام کرتے ہیں۔زبانی کلامی باتیں نہیں چلیں گی، ایس ایچ او کی گریڈنگ بھی کی جائے۔پنجاب میں کوئی گینگ، کرائم پاکٹ اور نو گو ایریا اب برداشت نہیں۔ہر شہرمیں کچھ ایسے علاقے اور روڈز ہیں جہاں لوگ شام کو نہیں جاسکتے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ناک کے نیچے ڈرگز کی خرید و فروخت ہوتی رہی، منشیات فروش گھر کرائے پر لے کر بیٹھے رہے۔منشیات کے خلاف مہم میں پکڑے گئے ملزموں کے خلاف ایف آئی آر کمزور تھی۔انہوں نے کہا کہ کمزور ایف آئی آر ملزموں کے خلاف فکس میچ کے مترادف ہے۔سیف سٹی سے کرائم کی ٹریکنگ میں مدد ملی ہے، دسمبر تک 18شہر سیف سٹی بن جائیں گے۔پرانے سسٹم کی نسبت پولیس رسپانس بہتر ہے لیکن مزید بہتری کی گنجائش اب بھی ہے۔سرگودھا جیسے واقعات سے بخوبی نمٹنا پولیس افسر کی کامیابی سمجھی جائے گی۔ڈرنے کی نہیں پرفارم کرنے کی ضرورت ہے، باقی صوبے پنجاب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔70سالہ سسٹم کی خامیوں کا ذمہ دار ڈی پی او،ڈی سی کو نہیں ٹھہرا سکتے، نظام بدلنا ہوگا۔گراؤنڈ میں جانے سے حقائق کا پتہ چلتاہے، عوام کا موڈ بھی بہتر ہو جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپیکر پر فساد پھیلانے والی تقاریر پر زیرو ٹالرنس ہے۔پولیس او رانتظامیہ کو مل کر نئے جوش و جذبے سے کام کرنا ہوگا۔

سینئر منسٹر مریم اورنگزیب، صوبائی وزیر ا طلاعات عظمیٰ زاہد بخاری، معاون خصوصی ذیشان ملک، چیف سیکرٹری،ہوم سیکرٹری، آئی جی، ایڈیشنل آئی جی، آر پی او اور ڈی پی اوز بھی اس موقع پر موجود تھے۔