ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ماموں کے گھر میں بلو پر کیا گزری؟۔۔۔۔۔۔ خاور نعیم ہاشمی

ماموں کے گھر میں بلو پر کیا گزری؟۔۔۔۔۔۔ خاور نعیم ہاشمی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(آپ ہر ہفتہ   اتوار خاور نعیم ہاشمی کی نئی کہانی  C 42 WEB پر پڑھ سکتے ہیں)

منو بھائی مرحوم سے اکثر مجالس میں یہ سوال پوچھ لیا جاتا تھا کہ، آپ کی بیگم آپ کو کیا کہہ کر مخاطب کرتی ہیں؟ وہ ہمیشہ بے ساختہ اور برجستہ جواب دیتے،، منو بھائی،، آج میں شہر کی ایک اور مقبول عام اور ہر دلعزیز ہستی سے آپ کو ملواتا ہوں جو جگت ماموں ہیں اور انہیں ان کی اہلیہ ہی نہیں، اپنے بچے بھی ماموں کہہ کر پکار نے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، ماموں کا لاحقہ ان کے نام کے ساتھ تخلص کی طرح چپک کر رہ گیا ہے، اور یہ ماموں ہیں معروف پالمسٹ عبداللہ شوکت چوہدری۔

میں یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ ماموں بننے کے لئے صرف بہن کا بال بچوں والی ہونا ہی ضروری نہیں، آپ کی بچپن کی محبت، یا جوانی کی محبوبہ جب کسی دوسرے سے بیاہ دی جاتی ہے تب بھی آپ ماموں ہی بنتے ہیں،، شادی شدہ عورت کو جب کسی کی نیت میں فتور نظر آئے تو وہ اپنے بچوں کا اس شخص سے تعارف ماموں کہہ کر ہی کراتی ہے، بعض دکاندار تو کئی کئی سو بچوں کے ماموں ہوتے ہیں۔

کسی زمانے میں ضرب المثل تھی کہ’’ ایکٹر بننے کے لئے مشتاق کا پان کھانا بہت ضروری ہے‘‘ مشتاق کی پان شاپ لکشمی چوک میں ہوٹل کنگ سرکل کے دروازے کے ساتھ ہوا کرتی تھی تھی، ایکٹروں ، شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کی تاریخی بیٹھک کنگ سرکل تواب نہیں رہا ، لیکن مشتاق پان شاپ ،حیدر پان شاپ کے نام سے آج بھی موجود ہے، حیدر، مشتاق کا بیٹا ہے ، اس نے پان بیچ بیچ کر اتنا کما لیا کہ کنگ سرکل خرید کر وہاں کئی منزلہ ہوٹل بنا دیا۔

کنگ سرکل کے حوالے سے میرے پاس کہانیوں کی تعداد کراچی کے نیپیئر روڈ کی بلڈنگ ’’بلبل ہزار داستان‘‘ کی داستانوں سے بھی زیادہ ہے، ماموں عبداللہ شوکت کو بھی میں نے ساٹھ کی دہائی میں مشتاق پان شاپ پر ہی دیکھا تھا، کئی نووارد ایکٹروں کو اپنے مستقبل میں جھانکنا ہوتا تھا، وہ ماموں کو چائے پلانے ہوٹل کے اندر لے جاتے اور ماموں ان کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھا کرتے تھے ، بیس سال بعد یعنی کہ انیس سو اسی کی دہائی میں ماموں سے قالینوں کا رسالہ نکالنے والے دوست نعیم طاہر شیخ کے کوئینز روڈ والے دفتر میں ماموں سے روزانہ ملاقاتیں ہونے لگیں.

یہ لاہور کے سینئر، جونیئر سبھی صحافیوں کا پسندیدہ ڈیرہ کہلاتا تھا ، طاہر شیخ کا دعوی تھا کہ جو اس کی بیٹھک میں نہیں بیٹھتا وہ کامیاب صحافی نہیں بن سکتا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ وہاں نذیر ناجی ، منو بھائی مرحوم ، عباس اطہر مرحوم ، خالد چوہدری، عبدالقادر حسن ، سید امجد حسین مرحوم، حسن نثار ، ہارون رشید، ایاز میر، ثقلین امام حتی کہ چیف دانشور ’’الامہ‘‘ صدیق اظہر کو بھی نعیم طاہر کی ،، صحبت،، میں بیٹھنا پڑتا تھا، کبھی کبھی منیر نیازی بھی ،،شغف،، فرمانے میرے ساتھ وہاں چلے جاتے۔جب طاہر شیخ کے مطلوبہ مہمان پورے ہوجاتے تو وہ کسی’’ ثقافتی‘‘ مہمان کو بھی بلوا لیتا،، اور ان غیر صحافتی مہمانوں میں جگت ماموں عبداللہ شوکت اکثر وہاں موجود ہوتے.

ماموں ہزار خوبیوں والے شخص ہیں، انہیں ستارہ شناس کے طور پر جاننے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوگا کہ جتنا میوزک کو وہ جانتے ہیں اتنا کئی بڑے بڑے موسیقار بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ایک رات میں اس ڈیرے پر پہنچا تو ماموں کلاسیکل موسیقی کے پکے راگ الاپ رہے تھے، سب لوگ ہمہ تن گوش تھے، جس عمر کے زیادہ تر صحافی نعیم طاہرکے ڈیرے پر جاتے اس عمر میں تو بھینس کو بھی موسیقی سے رغبت ہو جا تی ہے۔ ماموں پکے سر لگا رہے تھے۔ واہ واہ کے ساتھ فرمائشیں بھی چل رہی تھیں، اس دن میری ماموں سے پکی دوستی ہو گئی ، کبھی وہ میرے گھر آجاتے اور کبھی میں انکی میزبانی کا لطف اٹھانے رحمان پورہ ان کے گھر جاتا.

ماموں جو اب زندگی کی آٹھویں دہائی میں سفر کر رہے ہیں گلوکار اور اداکار بننا چاہتے تھے، میں ایسے بہت سے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو ایکٹر بننا چاہتے تھے، دال نہ گلی تو پیر فقیر یا صحافی بن گئے ۔۔۔ سن دو ہزار دو میں الیکٹرانک میڈیا آیا تو ابتدائی چینل میں ماموں کو بھی پروگرام مل گیا ’’ بولتے ستارے‘‘ ماموں عالمی سطح پر مشہور ہوگئے، لگتا تھا ، جیسے ساری دنیا ماموں کی مدد سے اپنے مستقبل میں جھانکنا چاہتی ہے، ماموں نے نہ صرف بے نظیر بھٹو کے قتل کی پیش گوئی کی تھی۔ بلکہ پانامہ اسکینڈل سامنے آنے سے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ نواز شریف کا سیاسی کیریئر ہمیشہ کیلئے ختم ہونے جا رہا ہے.

البتہ ماموں نے ایک بڑا بلنڈر اس وقت کیا جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی ہوئی، سارے آسٹرولوجسٹ اس بات پر متفق تھے کہ یہ شادی خان صاحب کی سیاست کے لئے ،، سعد،، ثابت ہوگی جبکہ ماموں کا اصرار تھا کہ شادی چھ ماہ بعد ماہ ستمبر میں ہوتی تو بہت اچھا ہوتا اور عمران خان کو بہت کامیابیاں اور کامرانیاں ملتیں، یہاں ماموں کو مات کیا ہوئی کہ وہ آہستہ آہستہ میڈیا میں معدوم ہونے لگے.

گو ماموں آج کل چینلز پر کم کم دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی کامیاب تاریخی پیش گوئیاں انہیں کبھی گم نہیں ہونے دیں گی، حالانکہ میرے خیال میں ماموں ایک ’’جھوٹ‘‘ بھی بولتے ہیں، اپنی صحیح عمر نہیں بتاتے اور دعوی کرتے ہیں کہ جب پارٹیشن ہوئی وہ صرف چار سال کے تھے، جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ماموں انیس سو سنتالیس سے پہلے بھی پیش گوئیاں کرتے ہوں گے.

(اب میں آپ کو ایک بے وقوف نوجوان کی کہانی سناتا ہوں جو ماموں شوکت عبداللہ سے جڑی ہوئی ہے) انیس سو ننانوے میں ایک رات کسی’’ ثقافتی تقریب ‘‘میں بٹ نامی ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی ، جنرل مشرف کے ’’انقلاب‘‘ اور نواز ، شہباز کی جلا وطنی کے باعث اس نوجوان کی ٹھیکیداری کو زوال آ گیا تھا ، اس نے فرمائش کی کہ میں اسے دست شناس ماموں سے ملوا دوں ، یہ شخص ایک رات میرے آفس آگیا اور عبداللہ شوکت کے گھر لیجانے پر اصرار کرنے لگا، میں نے ماموں کو فون کیا جواب ملا’’سب کچھ ہے، آجاؤ‘‘ میں نے اپنے ایک ساتھی صحافی خالد فاروقی کو بھی ساتھ لیا اور بٹ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کو ماموں کے ڈرائنگ روم تک پہنچ گیا.

ایک ٹیبل پر گلاس اور کھانے کے برتن پہلے سے موجود تھے ، ماموں نے میزبانی شروع کر دی، ماموں جب بھی کوئی چیز لینے ڈرائنگ روم سے باہر جاتے ، ’’بٹ‘‘ اشاروں کنایوں سے ان کا مذاق اڑانے لگتا ، وہ اپنی قسمت کا حال جاننے آیا تھا ، ماموں مہمان نوازی اور وہ بد تمیزی کر رہا تھا،، میں خود کسی بھی نجومی کو ہاتھ دکھانے یا اپنا زائچہ بنوانے کے سخت خلاف ہوں ، لیکن یہ آدمی تو منت ترلہ کرکے میرے ساتھ یہاں آیا تھا، اس کے اشارے کنائے مجھے غصہ دلا رہے تھے، میرا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا، اسی کیفیت میں جب میں نے بٹ کوغور سے دیکھا تو مجھے اس کے چہرے میں کسی اور کا چہرہ نظر آیا ، میں نے فی البدیہہ اس سے پوچھ لیا ’’بٹ صاحب! گلوکار اور اداکار بھٹی کی فیملی سے کوئی تعلق ہے؟‘‘

بٹ نے اسی رفتار سے جواب دیا’’ آپ کو کیسے پتہ ہے؟ بھٹی صاحب تو میرے والد کے گہرے دوست تھے ، اکثررات کا کھانا کھانے ہمارے گھر آ جایا کرتے تھے‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا ،اسے تو چپ ہی لگ گئی، شاید وہ میرے سوال کی نزاکت کو بھانپ گیا تھا، ہم جلد ہی ماموں کے گھر سے رخصت ہو گئے اس نے ماموں سے زائچہ بنانے کی بھی بات نہیں کی تھی، اب میں نے بٹ کو علامہ اقبال ٹاؤن اس کے گھر ڈراپ دینا تھا ، کیونکہ اس کے پاس گاڑی نہیں تھی، وہ اپنے گھر کے دروازے پر خاموشی سے اتر گیا، راستے میں بھی ہمارے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا۔ اس کے بعد وہ مجھے کبھی نہیں ملا۔