سٹی42: بلوچ دہشتگرد گروہ نے بلوچ عوام پر ایک اور جان لیوا حملہ کر کے کئی بلوچوں کو شہید کر دیا۔ اس حملے میں معصوم بچے بھی نشانہ بن گئے۔ بلوچستان کے شہر تربت میں ہفتے کے روز بم کے دھماکےمیں چار افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے 5 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ ابھی تک دھماکے کی نوعیت کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
تربت میں بم کے دھماکے کی ایک سی سی ٹی وی سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے۔ اس فوٹیج میں سڑک پر کئی گاڑیوں کی موجودگی کے دوران اچانک دھماکے کے بعد ایک بڑے شعلے نے سڑک پر چلتی ایک مسافر بس کو لپیٹ میں لے لیا۔
اس دھماکے کا ممکنہ ٹارگٹ بلوچستان پولیس کے ایس ایس پی سیریس کرائم ونگ زوہیب محسن ہو سکتے ہیں۔ ایس ایس پی زوہیب محسن اور ان کی فیملی کے 6 افراد اس خوفناک دھماکے کی زد میں آ کر زخمی ہوئے۔
ایک پولیس ذریعہ نے انکشاف کیا کہ تربت کے علاقہ نیو بہمن میں مسافر بس کے قریب ریمورٹ کنٹرولڈ بم کے پھٹنے سے بس کو آگ لگی۔ اس دھماکے سے پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔ ذریعہ کے مطابق بس میں سیکیورٹی اہلکار سوار تھے، دھماکہ سے ایس پی سمیت5پولیس اہلکار اور ایس پی کے 4 بچے معمولی زخمی ہوئے،پولیس اہلکاروں میں 3 جاں بحق ہوئے۔ ایس ایس پی زوہیب محسن کی کار اس حملے کے وقت باس کو قریب سے گزر رہی تھی، بس اور کار بیک وقت حملے کی زد میں آئیں۔ پولیس کے مطابق محسن اور اس کے اہل خانہ علاقے سے گزر رہے تھے کہ دھماکا ہوا۔
بلوچ دہشتگردوں کی تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے سویلینز پر اس کھلے دہشتگرد حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
جاں بحق ہونے والوں میں نور خان، عبدالوہاب، اعجاز اور لیاقت علی شامل ہیں۔ حملے میں شہید ہونے والے چاروں شہریوں کا تعلق بلوچستان سے ہی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ دہشتگرد تنظیم بی ایل اے نے ایک سال میں 100 سے زائد بے گناہ بلوچ شہریوں کو شہید کیا ہے۔ اس حملے سے ایک بار پھر ظاہر ہوا کہ یہ دہشتگرد گروہ سویلینز کو بے دریض نشانہ بنا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ تربت کے علاقے دشت میں دھماکے میں دو افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے کہا تھا کہ دیسی ساختہ بم کے پھٹنے سے ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں دہشتگردی کے سبب ہونے والی کل 2546 اموات میں سے 782 اموات صرف بلوچستان میں ہوئیں۔
دہشت گرد حملوں میں اضافہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد تسلسل کے ساتھ ہوا ہے۔ پاکستان کو دیرینہ شکایت ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا مین دہشتگردی میں ملوث افراد کو ڈیورنڈ لائن پار محفوظ پناہ گاہیں بنانے کا موقع ملا ہوا ہے۔ وہ یہاں حملے کر کے فرار ہو کر وہاں چلے جاتے ہیں اور وہاں سے دہشتگردی کے لئے درکار سامان اور افرادی قوت کے ساتھ چھ چھپا کر پاکستان میں گھس آتے ہیں۔
تصویر میں 4 جنوری 2025 ہفتہ کے روز بلوچستان کے علاقے تربت میں بم حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کا ڈھانچہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بم کے دھماکے سے بس کو آگ لگی جس سے پوری گاڑی کچھ دیر مین جل کر راکھ ہو گئی اور صرف سٹیل کا سٹرکچر باقی بچا۔