سٹی42: چین میں بظاہر نئے وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا میں چائنہ فوبیا کا شکار میڈیا آؤٹ لیٹس کو خوف پھیلانے کا نیا موضوع عطا کر دیا ہے۔ چین کے حوالے سے سب سے زیادہ خوف انڈیا کے میڈیا میں پھیلایا جا رہا ہے اور اس وائرس کی اوقات یہ ہے کہ یہ پاکستان میں چوبیس سال سے موجود ہے لیکن نہ ادارے خوفزدہ ہوئے نہ ہی عوام میں خوف پھیلا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے رسمی تصدیق کی ہے کہ چین میں حالیہ دنوں میں پھیل رہا وائرس ہیومن میٹاپنیووائرس پاکستان میں نیا نہیں، یہاں اس وائرس کی موجودگی کا پتہ 2001 میں چلا تھا۔
صحافتی ذرائع کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ NIH کےاہلکار کا کہنا ہے کہ "پاکستان میں ہیومن میٹاپنیووائرس HMPV کیسز کا پتہ لگانے اور ان کا انتظام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔"
چین میں ہیومن میٹاپنیووائرس کے پھیلاؤ کے متعلق سنسنی خیز اور خوف پھیلانے والی خبروں کے حوالے سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ NIH کے عہدیدار نے پاکستانی عوام کو پرسکون رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وائرس پاکستان میں بھی موجود ہے لیکن خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چوکسی میں اضافہ، تیاری بہرحال بہت ضروری ہے۔
عوام احتیاطی تدابیر پر توجہ دیں
اسلام آباد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے تصدیق کی ہے کہ ہیومن میٹاپنیووائرس (HMPV)، جس نے چین میں ایک حالیہ وبا کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے، کم از کم دو دہائیوں سے پاکستان میں گردش کر رہا ہے، وفاقی محکمہ صحت کے حکام نے ہفتے کے روز اس بات کی تصدیق کی ۔
این آئی ایچ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں پہلی بار 2001 میں اس وائرس کی موجودگی کا پتہ چلا تھا۔ HMPV نے کئی سالوں میں کئی مرتبہ وبا کی صورت اختیار کی۔ ان تمام وباؤ پھیلاؤ کے واقعات میں بنیادی طور پر بچے متاثر ہوتے رہے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) اسلام آباد کے ایک اہلکار نےبتایا، "پاکستان میں انسانی میٹاپنیووائرس کی پہلی بار شناخت 2001 میں ہوئی تھی، اور تب سے اس کے پھیلنے کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔"
"2015 میں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز ہاسپٹل اسلام آباد) میں کی گئی ایک تحقیق میں ایسے بچوں میں ایچ ایم پی وی کے 21 کیسز پائے گئے جو سانس کی نالی کے شدید انفیکشن کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔"
چین کی رپورٹوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں
چین میں HMPV کے پھیلنے کی خبروں اور خوف پھیلانے والی افواہوں کے ہنگام میں عوام کو پرسکون رہنے کی تاکید کرتے ہوئے، NIH حکام نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں اس وقت دراصل موسمی انفلوئنزا پھیل رہا ہے، انفلوئنزا A اور B کے کیس ہسپتالوں مین رپورٹ ہو رہے ہیں، طبی ماہرین اور پبلک کو جس چیز پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے وہ انفلوئنزا ہے۔
این آئی ایچ کے اہلکار نے مشورہ دیا کہ "لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر توجہ دینی چاہیے جیسے کہ باقاعدگی سے ہاتھ دھونا اور کھانسی کی سورت میں جراثیم پھیلنے سے روکنے کے لئے مناسب آداب کو اپنانا تاکہ وائرل بیماریوں سے بچا جا سکے۔"
ہیومن میٹاپنیووائرس کی پاکستان میں موجودہ صورتحال کا جائزہ
این آئی ایچ کے اہلکار نے بتایا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) منگل کو ہونے والی میٹنگ میں صورتحال پر تبادلہ خیال کرے گا۔
بارڈر ہیلتھ سروسز (BHS) اس وائرس کے پاکستان مین بہرون ملک سے داخلہ کے خطرہ کو دیکھنے کے لئے پہلے ہی تمام ائیرپورٹس، بندرگاہ اور زمینی راستوں پر ہائی الرٹ پر ہے۔
پاکستان میں وائرس کی کھوج اور بچاؤ کی تیاری
"جیسا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے ماحول میں یہ وائرس پہلے سے موجود ہے، ہمارے پاس تمام HMPV جین ٹائپس کا پتہ لگانے کے لیے ٹولز اور مہارت موجود ہیں،" NIH اہلکار نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک کسی بھی سہپتال سے اس وائرس سے متاثرہ کسی مریض کے حالیہ داخلہ کی کوئی اطلاع نہیں، کسی متاثرہ مریض کے کوئی نمونے این آئی ایچ کو موصول نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ سرِ دست وائرس پاکستان کے کسی بھی حصہ میں وبا پھیلانے کی کنڈیشن مین نہیں ہے۔
چین میں پھیلنے پر تبصرہ کرتے ہوئے، NIH کے ماہر نے وضاحت کی کہ جو بچے سخت COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران پیدا ہونئے تھے ، ان خاص بچوں کو عام پیتھوجینز کا سامنا نہیں کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان کی پیدائش کے وقت ماحول میں انہیں بیرونی پیتھوجنز سے بچانے کا خصوصی اہتمام اتفاق سے موجود تھا۔ اس وجہ سے وہ خاص بچے نئے وائرس کا سامنا کرتے وقت شدید بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان مین نہ COVID-19 وائرتس تباہ کن حد تک پھیلا نہ ہی سخت لاک ڈاؤن ہوئے اس لئے وائرس کے لئے ولنریبل بچوں کی موجودگی کی یہ سورتحال پاکستان میں نہیں ہے۔
اسلام آباد میں HMPV کی ممکنہ موجودگی
اسلام آباد کے پمز میں 2015 کے ایک مطالعے میں شدید شدید سانس کے انفیکشن (ساڑی) والے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں ایچ ایم پی وی کے پھیلاؤ، جینیاتی تنوع اور موسمی نوعیت کی تحقیقات کی گئیں۔
گلے کسے حاصل کئے گئے مواد کے 127 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، 16.5% HMPV کے لیے مثبت نکلے تھے۔ جینوٹائپ B2 سب سے عام موجود سٹرین تھا، اس کے بعد A2b، A2a، اور B1 تھا۔
اسلام ااباد مین نسبتاً محدود درجہ کی وبا کی دریافت کی اس بات کو اب نو طویل سال گزر چکے ہیں۔
"HMPV کیسز سردیوں کے مہینوں میں، خاص طور پر نومبر اور دسمبر میں، کھانسی، گھرگھراہٹ، بخار، اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کے ساتھ،" سامنے آئے تھے، یہ 2015 کے مطالعہ نے نوٹ کیا تھا۔ سنگین معاملات میں پھیپھڑوں میں دراندازی ظاہر ہوتی ہے، جس صورت میں ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے۔
اس تحقیق میں پاکستانی HMPV سٹرین اور ہندوستان، چین اور سنگاپور میں پائے جانے والے جینیاتی مماثلت کو اجاگر کیا گیا تھا۔
ماہرین نے وائرس کے موسمی اور طبی اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے وسیع نگرانی اور کثیر سالہ مطالعات کی ضرورت پر زور دیا۔
موسمی انفلوئنزا ایک حقیقی بڑی تشویش
این آئی ایچ کے مطابق، پاکستان اس وقت موسمی انفلوئنزا کے کیسز میں اضافے سے نمٹ رہا ہے۔
انفلوئنزا اے اور بی دونوں ملک بھر میں پھیل رہے ہیں، جس سے فلو جیسی علامات پیدا ہو رہی ہیں جو بچوں، بوڑھوں، حاملہ خواتین اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں شدید بیماری کا باعث بن سکتی ہیں۔
NIH نے عوام پر زور دیا کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں اور علامات کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کے لیے بروقت طبی امداد حاصل کریں۔
مضمرات اور سفارشات
ماہرین صحت نے HMPV اور دیگر سانس کے وائرسوں کی نگرانی کے لیے ایک مضبوط اور مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا۔ NIH اہلکار نے نتیجہ اخذ کیا، "پاکستان میں HMPV کیسز کا پتہ لگانے اور ان کا انتظام کرنے کی صلاحیت ہے، لیکن چوکسی اور تیاری میں اضافہ بہت ضروری ہے۔"
چین میں حالیہ دنوں میں ہیومین میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی) کے پھیلنے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
یہ وائرس 14 سال اور اس سے کم عمر کی عمر کے بچوں میں پھیل رہا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس سے بیمار ہونے والوں کو کتنا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اب اس وائرس کے حوالے سے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کا بیان سامنے آیا ہے۔
قومی ادارہ صحت کے مطابق چین میں پھیلنے والا ایچ یم پی وائرس 2 دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ ایچ ایم پی وی کی پاکستان میں پہلی دفعہ تشخیص 2001 میں ہوئی تھی۔
چین میں کورونا جیسا وائرس پھیلنے لگا
بیان کے مطابق 2015 میں اس وائرس کے پمز اسلام آباد میں 21 کیس سامنے آئے تھے۔
این آئی ایچ حکام نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے فی الحال ایچ ایم پی وی کے حوالے سے کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ چین میں ایچ ایم پی وی کی صورتحال پر این سی او سی کا اجلاس 7 جنوری کو ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت موسمی انفلوئنزا خاص طور پر انفلوئنزا اے اور بی کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔
دوسری جانب طبی ماہرین کا بھی کہنا تھا کہ ایچ ایم پی وی کے کیسز اکثر اوقات سامنے آتے رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ وائرس پہلی بار 2000 میں سامنے آیا تھا اور بیماری کی شدت میں اب تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔
امریکا میں ہر سال 5 سال سے کم عمر 20ہزار بچے اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور وہاں وائرس سے بچاؤ کیلئے کورونا والی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔