ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،عدالتی معاون فیصل صدیقی

پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،عدالتی معاون فیصل صدیقی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری : سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہاکہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ،پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا۔
سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی وقفے کے بعد سماعت ہوئی،چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،عدالتی معاون فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ سمیت دیگر وکلا سے درخواست ہے دلائل مختصر رکھیں،وقت کی کمی کیوجہ سے مختصر دلائل سنیں گے،عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہاکہ 50 فیصد دلائل کم کر دیئے مختصر دلائل دونگا۔
فیصل صدیقی نے کہاکہ سپریم کورٹ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کرے،تاحیات نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ جب پارلیمنٹ نے ایکٹ بنا دیا ہے تو سپریم کورٹ پھر نااہلی کا فیصلہ ختم کیوں کرے، وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں قانون سازی پر سوالات اٹھتے ہیں، سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں،اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہوگا،نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہاکہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ،پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا،سمیع اللہ بلوچ میں ایسا فیصلہ دیا گیا جس پر آئینی خلا تھا، تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے،تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لئے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا۔
عدالتی معاون نے کہاکہ سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈیکلیریشن کی بنیاد پر دی تھی،لازمی نہیں کہ عدالتی ڈیکلیریشن ہمیشہ کیلئے ہو، ڈیکلیریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی معیاد بھی ختم ہوسکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے،وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے،پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پر ہو سکے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین میں خلا کی صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کیلئے عدالتی تشریح ہی ہوگی؟آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے،آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا، سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کو چھوڑ دیں،جب پارلیمنٹ نے نااہلی کا نیا قانون بنا دیا تو اس پر عمل کر لیں،کسی چیز کو بغیر چھیڑے پارلیمنٹ کے قانون پر عمل کیوں نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا،فیصل صدیقی نے کہاکہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے کی صورت میں آئینی تشریح کے معاملے میں مسائل ہوں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ قانون ساز خلا اس لئے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے،اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جاسکتا،کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟ اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پر کیا جائے گا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ اگر قانون ساز خلا پر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہو جائے کونسا عمل بالا ہوگا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ڈیکلیریشن کی مدت پانچ سال تک رکھنا الگ بات ہے،قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے،نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے،قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے، انسان برا نہیں اس کے اعمال برے ہوتے ہیں،کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے،62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے،اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے،
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہاکہ فیصل واوڈا اور سمیع اللہ بلوچ کیس میں کوئی فرق نہیں،سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کی نااہلی ختم کی تو سمیع اللہ بلوچ کیساتھ تضاد کیسے ہوا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ غلط بات کر رہے ہیں جج کی مرضی نہیں چلتی کہ جو دل کرے فیصلہ دے، تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کر دیتی ہے، اگر کوئی آج زانی یا شرابی ہے تو وہ کل تو توبہ کر سکتا ہے،اگر توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسے کر سکتی ہے؟ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اس کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ کسی نے توبہ کر لی؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اگر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوتے تو مطلب وہ صادق اور امین ہے؟ عدالتی معاون فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اور کتنے وکلا رہ گئے ہیں مزید کتنا وقت لگ سکتا ہے، جو وکلا پانچ منٹ بولیں گے وہ دلائل دیں،سماعت کل تک رکھ لیتے ہیں،کل صبح نو بجے سماعت رکھ لیتے ہیں، کیس کی سماعت کل صبح نو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔