روزانہ کی بنیادپر سینکڑوں پیغامات موصول ہورہے ہیں کہ ’’وزیراعلیٰ کو کسانوں کی فصلوں سے اٹھتا دھواں تو نظر آجاتا ہے لیکن آسمان کو چھوتی کھاد کی قیمتیں نظر نہیں آرہیں. گاڑیوں کے کالے دھوئیں پر تو نظر ہے لیکن بلیک میں فروخت ہونیوالے ڈی اے پی کھاد کے کنٹینرز نظر نہیں آتے۔ کھاد ڈیلرزکے گوداموں میں ذخیرہ کی ہوئی کھاد نظر نہیں آتی ،پنجاب کی انتظامیہ کی بااثر کھاد ڈیلرز کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے ٹانگیں کانپتی ہیں یا پھر بعض ملازم حصہ وصول کرکے خاموش ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کسانوں پر فصلوں کی باقیات جلانے کے مقدمات درج ہو رہے ہیں لیکن بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کھاد ڈیلرز کے متعلق کوئی خبر نہیں آ رہی۔ کبھی بھی انتظامیہ نے اعلان نہیں کیا کہ بلیک میں کھاد فروخت کرنے والوں کیخلاف اتنے مقدمات درج ہوئے ‘‘ کسانوں کا یہ شکوہ بھی ہے کہ فصلوں پر اخراجات تو ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ آ رہے ہیں لیکن ان کو اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
میں نے جب ان شکایات کا جائزہ لیا تو مجھے افسوس ہوا کہ کسان سال بھر محنت کرتا ہے، جب پھل حاصل کرنے کا وقت آئے تو کوئی اور لے جاتا ہے،جس فصل پر خرچہ تو کئی گنا زیادہ ہو تا ہے اور آمدن نہ ہونے کے برابر! ایسی صورت حال سے دوچارکسان دہائی بھی نہ دے تو کیا کرے۔
میں نے ایسے کئی کاشتکار دیکھے ہیں جو سال ہا سال سے قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، مہینوں مشقت کر کے جو کچھ اگاتے ہیں اسے منڈی میں فروخت کر کے اتنا بھی نہیں ملتا کہ گھر کا دال دلیہ چلا سکیں، قرضوں کا بوجھ ہر نئی فصل کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ تلمبہ کے رہنے والے ایک شہری بتا رہے تھے کہ دیہی معیشت میں 90 فیصد لوگ اب سود کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ سارا سود کا پیسہ ان کسانوں،غریبوں کو جارہا ہے۔حکومت ہے کہ نہ تو کسانوں کی مشکلات حل کررہی ہے اور نہ ہی ان سود خوروں کو لگام ڈال رہی ہے ۔
پانچ اضلاع ملتان،خانیوال،جھنگ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لیہ کے کسانوں سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے ڈی اے پی کھاد کے ناپید ہونے کا شکوہ کیا ،ساتھ ہی پتا چلا کہ جو مل رہی ہے وہ مہنگے داموں ۔حکومت کے بنائے گئے نرخوں پر ایک بوری بھی نہیں مل رہی ۔اس وقت گندم کی فصل کو ڈی اے پی کھاد کی اشد ضرورت ہے ،طلب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیلرز بھاری منافع کما رہے ہیں ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی کے ساتھ اتنی بے حسی کیوں؟ کسان جب اناج اور سبزی لے کرشہر میں آتا ہے تو پولیس کے سپاہی سے لے کر آڑھتی تک سب اسے لوٹتے ہیں۔ سارا سال جانور پالتا ہے اور سال میں ایک دن یعنی عید قربان پر انہیں بیچنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس طرح کچھ خرچہ نکل آئے۔ اُس وقت بھی سارے ٹی وی چینل اور اخبارات آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اس سال جانور بہت مہنگے ہوگئے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کسان سارا سال قربان ہوتا ہے ایک دن باقی لوگ قربانی دے دیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا صرف جانور ہی مہنگے ہوتے ہیں؟ دیگر اشیاء ضروری مہنگی نہیں ہوتیں؟ قیمتوں میں ہر سال 20 فی صد اضافہ نہیں ہوتا؟ اپنی تنخواہوں میں 20, 15 فی صد اضافہ تو سرکاری ملازمین، سیاستدانوں کو اچھا لگتا ہے لیکن کسان کی فصل کی قیمت بڑھ جائے تو کسی کو گوارا نہیں۔ ہر طرف اتنا ہنگامہ کیا جاتا ہے کہ کہ اتنی زیادتی! اب ہر چیز کی قیمت بڑھ جائے گی۔ جیسے پہلے تو کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوتا۔
میری ایوانوں میں بیٹھے بڑے سیاستدانوں سے عرضی ہے کہ کبھی جاکر دیکھئے جو کسان کپاس پیدا کرتا ہے۔ آج بھی کھیت میں ایک بنیان اور لنگی پہنے ننگے پاؤں کھڑا ہے۔ اُس کی اولادیں وہیں کھیتوں میں رُل رہی ہیں جب کہ اس کی کپاس کے سوداگر درجنوں ٹیکسٹائل ملز لگا چکے ہیں اور اُن کے بچے بیرون ملک سے پڑھ کر کمزوروں کو لوٹنے کے نئے طریقے سیکھ کر لوٹتے ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ خود تلخ تجربہ سے گزر چکے ہیں۔ ان کی تحریک پر کسانوں نے دوسری فصلیں چھوڑ کر کپاس اگائی کہ اس کی سرکاری طور پر اعلان کردہ قیمت مناسب تھی۔ پنجاب میں کپاس کی بمپر کراپ پیدا ہو گئی لیکن جب کپاس کو فروخت کرنے کا وقت آیا تو مارکیٹ میں بیٹھے مگرمچھوں نے حکومت کی اعلان کردہ قیمت دینے سے انکار کر دیا۔ کپاس کے کسانوں کو کس کس نے کس کس طرح لوٹا وزیراعلیٰ کو اس کی بخوبی خبر ہے۔
بڑی اچھی بات ہے کہ ملک بھر میں سڑکوں کے جال بچھائے جارہے ہیں، ریلوے کے نئے ٹریک لگائے جارہے ہیں، پاک چائنا اکنامک کوریڈور بھی بنایا جا رہا ہے، پن بجلی، ایٹمی بجلی کے پلانٹ بھی لگنے چاہئیں، صنعتوں کو فروغ ملنا چاہئے، گاڑیاں بھی سستی ہوئی ہیں،محسن رضا نقوی بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب لاہور اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں اتنی تیز رفتاری سے منصوبے مکمل کررہے ہیں کہ ان کو ’محسن سپیڈ‘کے نام سے پکارا جارہا ہے،ہسپتالوں کی حالت بدل رہے ہیں،سکولوں میں تعلیمی انقلاب آرہا ہے ،تھانے تبدیل ہوچکے ہیں ۔
وزیراعلیٰ صاحب ! سڑکیں بنائیں، پل بنائیں، بڑی بڑی انڈسٹریاں لگائیں،ہسپتال اور سکول بھی ٹھیک کریں ۔ لیکن ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کسان ہے جو جی ڈی پی کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کسان انتظامیہ کی سرد مہری سے مررہا ہے۔ لہذا آپ درخواست ہے، التجا ہے، مِنت ہے کہ میرے پنجاب کا کسان مررہا ہے، بچا لیجئیے۔
نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ