ویب ڈیسک: پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ وکلا کا کام مقدمات کے فیصلوں میں ججز کی معاونت کرنا ہے تاہم وکالت کا لائسنس ملنے کے بعد بھی بہت سے لا گریجویٹس کو علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔
پنجاب بار کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’پنجاب بار کونسل کے اقدامات کو سراہتا ہوں، وکلا کی تربیت میں بار کونسلز اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلا برادری کا کام ججز کی معاونت کرنا ہے، وکلا کو ججز کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے وکلا کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک شخص جب وکیل بن کر نکلتا ہے تو اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس نے اب کیا کرنا ہے، اس سلسلے میں بار کونسلز رہنمائی کر سکتی ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ وکلا کا کام عدالت میں دلائل دینا اور بحث کرنا ہوتا ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں ہر بار کونسل کو چاہیے کہ جب وہ کسی وکیل کو اِن رول کرے تو اس کو سمجھائے کہ اس کا اپنے ساتھی وکلا، اپنے موکل اور عدالت کے ساتھ کیسا رویہ ہونا چاہیے۔‘'
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ وکلا اور ججز ایک دوسرے کے خلاف نہیں جا سکتے، وکلا اپنا کام کرنے کے بجائے ججز کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔
سیمینار سے خطاب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ فیصلہ پسند نہ ہونے کی صورت میں عدالتوں پر حملہ جائز نہیں، فیصلہ پسند نہ ہونے کی صورت میں اپیل کا حق موجود ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ ’قانون پڑھنے اور سمجھنے والے کو ہی پتا ہوتا ہے کہ اپیل کیسے ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ گھر کے بچے اٹھ کر باپ پر حملہ کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے محنت اور عزم ضروری ہے۔