ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مسائل کے دلدل مین دھنسا پاکستان کیسے عروج تک جائے گا، احسن اقبال نے بڑا خواب دکھا دیا

Ahsan Iqbal, Expo Center, , Taxtile Asia International Trade Fair, Lahore, Exports Thrash hold, One Hundred Billion Dollar Exports Target, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اسوہ فاطمہ: ایکسپو سینٹر میں پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اٹھائیسویں ٹیکسٹائل ایشیاء بین الاقوامی تجارتی میلے  میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ احسن اقبال نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت دھرنے دینے کا نہیں ہے، دھرنوں کی سیاست کی بجائے سالیوشنز کی بات کریں، ہم دعوت دیتے ہیں کہ آیئے ہمارے اور  ماہرین کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور مسائل کے حل کی تجاویز دیں۔ 

احسن اقبال ایکسپو سنٹر میں ٹیکسٹائل ایشیا انٹرنیشنل ٹریڈ فئیر میں لگائے گئے سٹالز پر گئے اور وہاں رکھی گئی مشینری اور  کام کرنے والے کاریگروں کے کام کو دیکھا۔ انہوں نے پاکستانی ساختہ مصنوعات میں گہری دل چسپی لی۔ اس موقع پر ان کی کاریگروں اور مینوفیکچررز سے گفتگو ہوئی ۔

احسن اقبال نے  تجارتی میلہ کے آرگنائزرز کو اس میلہ کے انعقاد پر مبارک دیتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس ٹریڈ فئیر میں  7 ممالک  سے  ساڑھے پانچ سو کمپنیاں شریک ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم پاکستان کی اس وقت  31 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کو بڑھا کو ایک سو ارب ڈالر سالانہ تک لے کر جائیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات سے نکلنے کے لئے ہمیں ایکسپورٹ ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔  ہر فیکٹری اور ہر گھر سے ہر کاروبار سے لوگ ایکسپورٹس کی طرف مائل ہوں تاکہ ہم پاکستان کے لئے زرمبادلہ حاصل کریں۔ یہ ہی ایک راستہ ہے جس سے ہم آئی ایم ایف کے قرضوں کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  ہمارے تجارتی اکاؤنٹ میں توازن ہو گا تو ہم  بیرونی عوامل پر انحصار سے نکل کر خود انحصاری کی طرف آ سکتے ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ آئی ایف ایف کے جس پروگرام میں ہم جا رہے ہیں وہ ایک کڑوی گولی ہے جسے ہم کو تین سال تک نگلنا ہو گا۔ یہ پروگرام ہمارے مسائل کا حل نہیں، آئی ایم ایف کا پروگرام ہمیں وقت بیل آؤٹ دے گا۔ پاکستان کا مستقل حل برآمدات کو بڑھانا اور پاکستان کو برآمدات کی معیشت میں ڈھالنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم نے ایکسپورٹرز کو ساتھ لے کر  وزیر اعظم کی نگرانی میں ایک روڈ میپ بنایا ہے جس میں ہم نجی شعبہ کو بھرپور مدد دیں گے تاکہ پاکستان کے ایکسپورٹرز اور مینوفیکچرر "میڈ ان پاکستان" کو  انٹرنیشنل مارکیٹ مین کوالٹی کا سمبل بنائیں۔ لوگ میڈ ان پاکستان برانڈز کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کریں۔

 

پرائیویٹ سکیٹر میں پروڈکٹویٹی، کوالٹی اور انوویشن کو امپروو کرنا ہے۔ اب ہمیں ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کی طرف بڑھنا ہے۔  اسی راستے پر چل کر ہم دیرپا ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔ امن، استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل اور اصلاحات کے راستے پر چلنا ہے۔

پاکستانیوں میں انڈیا، ویتنام، کوریا، بنگلہ دیش سے کوئی چیز کم نہیں ہے، ہم نے بہترین منصوبے بنائے لیکن ہم نے اگر مار کھائی تو صرف پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے مار کھائی۔

احسن اقبال نے کہا اب ہمیں اللہ نے سی پیک کی صورت میں ایک تحفہ دیا۔ ہم اس کے ساتھ چلتے رہتے تو آج ہمیں ب بجلی کے بلز،ے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پرتا ۔ بدقسمتی سے 2018 میں چند ججوں اور چند جنرلز نے اپنی بیگمات اور بچوں کے دباؤ پر ایسا فیصلہ کر دیا اور ایسی اناڑی حکومت کو بٹھا دیا کہ جس نے ہر منصوبے پر یو ٹرن لیا، پاکستان کے چین جیسے دوست کو بھی نہین بخشا، چین کے منصوبوں پر الزامات لگائے گئے جس کے نتیجہ میں چین کے سرمایہ کار پاکستان کو چھوڑ کر ویتنام، کمبوڈیا چلے گئے۔ اب ہم نے دوبارہ محنت کر کے  چین کو متوجہ کیا ہے۔ اب چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں سی پیک ٹو  کی شکل میں سی پیک ون سے بڑا  پروگرام شروع کرنا چاہتا ہے۔ قوم کو سوچنا پڑے گا کہ جب بھی سی پیک پر کام شروع ہوتا ہے تو پاکستان مین انتشار کون لاتا ہے، دھرنے کون شروع کر دیتا ہے۔ اب ہم سی پیک ٹو پر کام کر رہے ہیں تو ایک بار پھر دھرنے اور انتشار اور فساد  کی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ قوم کا فرض ہے کہ ملک میں پالیسیوں  اور استحکام کو اور اصلاحات کے راستے میں کسی کو رخنہ ڈالنے کی اجازت نہ دیں۔ اگر پاکستان کی معیشت ڈوبی تو پوری قوم خدا نہ خواستہ ڈوبے گی، یہ نہین ہو گا کہ ایک جماعت ڈوب گئی اور باقی بچ جائیں گے۔ ہمیں اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، دس سال تک پوری قوم کو یکسوئی کے ساتھ ایکسپورٹس کو  بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 

احسن اقبال نے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا تو چینی قیادت نے پاکستان کی بھرپور مدد کرنے کا یقین دلایا، اب چین کا وفد اس وقت پاکستان کا دورہ کر رہا ہے جسے صدر شی جن پنگ کے بھیجا ہے کہ جا کر دیکھیں کس کس شعبہ میں پاکستان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔  ہم بڑی ذمہ داری کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اگر ہم نے ان موقعوں سے فائدہ نہ اٹھایا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہماری نطر  2047 پر ہونی چاہئے جب پاکستان اور بھارت دونوں آزادی کا سو سالہ جشن منائیں گے، ہمیں  2047 میں ثابت کرنا ہے کہ پاکستان انڈیا سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے کا اہل ہے۔ 

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر ملک کی ترقی کا انجن ہے، حکومت کے پاس تو اتنے بھی پیسے نہیں کہ تنخواہوں اور قرضوں کا بوجھ ہی اٹھا سکے، سارا ریوینیو قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی تھوڑا ہے۔  اب ترقی کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ پیداوار بڑھائیں، زراعت کی پیداوار مین ویلیو ایڈیشن کریں، ایکسپورٹس میں سو ارب ڈالر کا ہدف جلد حاصل کریں۔ جس روز ہم نے سو ارب ڈالر ایکسپورٹ کا ہدف حاصل کر لیا اس کے بعد اگلی سو ارب ڈالر کی ایکسپورٹس خود بھاگ کر ہمارے پاس آ جائیں گی۔ 

احسن اقبال نے کہا کہ آج کی مشکلات اور بندشیں تین سال کے لئے ہیں کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام مین ہیں، تین سال کا سفر مشکل چڑھائی کا سفر ہے، اس کے بعد ہم ملک کو اس مقام پر لے جائیں گے کہ ہمیں کبھی کسی سے امداد نہ مانگنا پڑے بلکہ پاکستان مدد کرنے والا ملک بن جائے۔

بجلی کے مسئلہ کے متعلق سوالات کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ  2000 سے  2013 تک ملک میں بجلی بنانے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنا تھا۔  ہم نے چن کی مدد سے جو 11 ہزار میگاواٹ کے منصوبے لگائے وہ جی ڈی پی کی چھ فیصد گروتھ کی پروجیکشن کو لے کر لگائے گئے تھے لیکن جب  2018 میں حکومت بدلی تو  اکانومی کو یک لخت کریش کر دیا گیا اور گروتھ چھ فیصد سے گر کر ایک فیصد تک اور اس سے بھی گر کر صفر فیصد  گر گئی۔ گروتھ گرنے سے بجلی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو گئی۔ ڈیمانڈ یکلخت گرنے سے مسائل آئے۔  جون میں ہم  29 ہزار میگاواٹ  استعمال کر رہے ہیں تو سردی میں یہ ڈیمانڈ آدھی رہ جاتی ہے۔ ہمیں بجلی کی ڈیمانڈ بھی بڑھانا ہے اور اس کا بوجھ بھی مینیج کرنا ہے۔  وزیراعظم اور پوری حکومت  اس وقت روزانہ میٹنگز کر رہی ہے کہ اس صورتحال میں ہم کیسے  عوام کو خصوصاً نچلے طبقہ کو ریلیف دے سکتے ہیں۔