عرفان ملک: مقدس مقامات کے اطراف جرائم پیشہ افراد کے ڈیرے، داتا علی ہجویری کا مزار بھی انہیں مقامات میں سے ایک ہے جس کی اطراف ایسے ہی جرائم پیشہ افراد کی آماجگا بنتی جارہی ہیں، انتظامیہ کو سب معلوم ہونے کے باوجود آج تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی بھر مار کی بات کریں یا نوسربازی کے واقعات کی، قصہ ہو جنسی زیادتی کے واقعات کا یا ہوں دیگر جرائم، لاہور کو داتا کی نگری کہا جاتا ہے، یہاں آنے والے اپنی منتیں، مرادیں پاتے ہیں لیکن انہی مقدس مقامات کے اردگرد چند بھیڑیے بھی گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ ہیں جرائم پیشہ افراد جن سے زائرین کی جان، مال، عزت و آبرو اور یہاں تک کے بچے بھی محفوظ نہیں۔
حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار سے ملحقہ علاقوں میں واقع ہوٹلز میں جنسی بھیڑئے ہیں یا دور دراز سے آئے زائرین میں کسی کو کچھ پتہ نہیں، جیب تراشی، چوری چکاری، اغواء اور منشیات کا گھناونا دھندا کرنے والے عناصر کام جاری رکھے ہوئے ہیں کوئی بھکاری ہے یا اس روپ میں بیٹھا کوئی دہشت گرد، نشئی ہے یا جرائم پیشہ افراد کا آلہ کار، کیا یہ سب نظر کا دھوکہ ہے؟
چائلڈ پروٹیکشن بیورو حکام کے مطابق رواں سال اب تک 50 بچوں کو دربار کے علاقوں سے ریسکیو کیا گیا جن میں سے اکثر نشے اور جنسی ہوس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دربار سے ملحقہ علاقوں میں لوئر مال کا علاقہ ہو، بھاٹی چوک یا بلال گنج، دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ نوسربازی اور بچوں و خواتین سے متعلقہ جرائم عام ہیں۔
تمام تر جرائم اور مکروہ دھندوں کا علم ہونے کے باوجود انتظامیہ ان کو جڑ سے ختم تو نہیں کرسکی لیکن دعوے کیا کئے جاتے ہیں؟ پولیس کے دعوے اپنی جگہ لیکن لاہور میں تمام ایسے مزارات کے گرد کہیں نہ کہیں جرائم پیشہ افراد کسی نہ کسی روپ میں اپنا کام دکھا رہے ہیں جس سے زائرین کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔