سٹی42: پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم خان نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے نام چار صفحات کا خط لکھ کر "سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کے عمل میں صوبائیت، اقربا پروری، لابنگ اور امتیازی سلوک" کے الزامات لگا دیئے۔
چیف جسٹس ابراہیم خان نے سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کے عمل میں صوبائیت، اقربا پروری، لابنگ اور امتیازی سلوک" کے الزامات لگانے کے لئے چار صفحات کے خط میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان کو سپریم کا جج بنائے جانے کا حوالہ دیا۔ جسٹس نعیم افغان تمام ہائی کورٹس میں سینئیر موسٹ جج تھے۔
جسٹس ابراہیم خان نے یکم اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا تھا جو آج اچانک میڈیا میں آ گیا ہے۔ چار صفحات کے اس خط میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اور امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔انہوں نے لکھا کہ وہ ہائی کورٹ کے ججوں میں سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں، ان کو سپریم کورٹ کا جج نہ بنانا امتیازی سلوک ہے۔
اپنے خط میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئےکہا کہ آپ کی توجہ اصول، میرٹ اور شفافیت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ آف پاکستان میں جج کی 4 پوسٹیں خالی ہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان کی تعیناتی پر خوش ہوں لیکن میں سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہوں، میرا نام سپریم کورٹ کے ججز کے فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا۔
جسٹس ابراہیم نے کہا ہے کہ میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کا ممبر ہوں، بادی النظرمیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی میں اقربا پروری اور امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ آپ نے صرف اپنے صوبے بلوچستان سے ایک جج کا تقرر کیا۔ مجھے سپریم کورٹ کا جج بنانےکے لیے کیوں مناسب نہیں سمجھا گیا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے میری سینیارٹی اور کوائف کو نظر انداز کیا گیا۔ میں ہائی کورٹس میں سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہوں۔ توقع تھی سپریم کورٹ میں خالی اسامیاں جلد پوری کی جاتیں تاکہ زیر التوا مقدمات میں کمی لائی جاسکے۔ بالخصوص ایسے وقت جب ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹیکس دہندگان سے ہمیں تنخواہ ملتی ہے۔ عوام توقع رکھتے ہیں خالی اسامیوں پر فوری تقرر ہوں تا کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
جسٹس ابراہیم خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی واحد تقرری نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ میں نے بہت سوچا لیکن مجھے کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی۔ اپنی تعریفوں کے طومار باندھتے ہوئے جسٹس ابراہیإ خان نے کہا کہ عدلیہ میں 31 سال سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ عدلیہ کے وقار کو بلندکرنےکے لیے میری غیر متزلزل خدمات ہیں۔ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے خدمات میرے لیے افتخار کا باعث ہیں۔
جسٹس ابراہیم خان نے یہ بھی سوال کیا کہ جبکہ چار پوسٹین خالی ہیں تو صرف بلوچستان کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان کو ہی پروموٹ کرنے کے لئے کس چیز نے اکسایا۔
جسٹس ابراہیم خان نے یہ بھی لکھا کہ یہ بات mind boggling بہت زیادہ ناقابلِ تصور ہے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت بلوچستان سے تین جج ہیں اور خیبر پختونخوا سے دو جج ہیں اس لئے خیبر پختونخوا سے ایک جج اور لیا جانا چاہئے تھا۔
جسٹس ابراہیم نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ بدقسمتی سے میرے "پرسنل کنکشن" تھوڑے ہیں۔ پرسنل کنکشن اکثر ایسی ترقیوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔ میری طرف سے ایڈووکیسی اور لابنگ کی یہ کمی میرے میرٹ کی شناخت اور میری انصاف کا بول بال کرنے ک کے لئے کمٹمنٹ کے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
جسٹس ابراہم ن خان نے مزید لکھا کہ خط کا مقصد جسٹس نعیم اختر افغان کی تقرری کو چیلنج کرنا نہیں ہے۔مقصد یہ ہےکہ کیا ہمارے ادارے میں میرٹ، شفافیت، برابری کے اصول مدنظر رکھے جاتے ہیں؟ مجھے اعتماد ہےکہ میرے خط کو میرے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔آپ نے خود خطوط لکھ کر صوابدید، امتیازی سلوک اور منظورنظر تقرریوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اپنی آئینی ذمہ داریاں مکمل طور پر اس امید کے ساتھ ادا کرتا رہوں گا کہ اللہ مجھے میری محنت کا پھل دےگا۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ 14اپریل کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔