ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔
قرآنی آیت سے چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سنانے کا آغاز کیا،سپریم کورٹ نے کہا کہ تفصیلات بعد میں جاری ہونگی،الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی و غیر آئینی ہے،آئین الیکشن کمیشن کو الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق پنجاب میں صدر مملکت کا حکم برقرار رہے گا،صدر کے حکم میں کچھ تبدیلیاں کی جارہی ہیں، الیکشن دو مراحل میں ہونگے،اپریل تک کاغذات نامزدگی پر اعتراضات کیخلاف درخواستیں دی جاسکتی ہیں،اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کرے گا، انتحابات 14 مئی کو ہونگے،اپریل کے بجائے انتخابات 14 مئی کو ہونگے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات شفاف کرائے جائیں،وفاقی حکومت 10 اپریل تک 20 ارب روپے جاری کرے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ تین رکنی بنچ کو چیمبر میں الیکشن کمیشن رپورٹ دے گا،فنڈز فراہم نہ کرنے پر متعلقہ حکام کیخلاف حکم جاری کیا جائے گا، انتخابات کیلئے نگران پنجاب حکومت تمام سہولیات فراہم کرے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سیکورٹی انتظامات کرے،آرمڈ فورسز سمیت رینجرز سیکورٹی کیلئے فراہم کی جائے، اپریل تک سیکورٹی انتظامات کر کے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جائے، پنجاب کی نگران کابینہ اور چیف سیکریٹری 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو انتخاباتی عملے کیلئے رپورٹ کرے،سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کے تناسب سے دیا گیا، اقلیتی فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔چار اور تین کے فیصلے کا موقف غلط ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ قابل عمل نہیں۔
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر پنجاب اور کےپی کے انتخابات میں تاخیر کے مقدمے کا فیصلہ 6 سماعتوں کے بعد گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔کیس کی پہلی تین سماعتیں پانچ رکنی بینچ نے کیں، جسٹس امین الدین نے چوتھی اور جسٹس جمال مندوخیل نے پانچویں سماعت پر کیس سننے سے معذرت کی، جس کے بعد 31 مارچ اور 3 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
آخری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا پیغام ہے اب بھی وقت ہے مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطرسیاسی ڈائیلاگ کریں اورکسی سیاسی نتیجے پرپہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جارہے ہیں کیوں کہ ہرکوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیرضروری معاملہ شروع ہوجائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججزخود منتخب کیے گئے ہوں، ہمیں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونےکا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہوگی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی پیش کی گئی وجوہات بھی دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہوچکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی، تاہم عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئےگا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہےکہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔
عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل، پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن کے وکلا سیکرٹری دفاع اور خزانہ سمیت ایڈووکیٹ جنرلز کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا، جو آج سنایا جائےگا۔