لاہور کی بڑی خاندانی دشمنی ایک کے بعد ایک انسانی جان لے رہی ہے۔ امیر بالاج کے قتل میں معاون ملزم احسن شاہ کے قتل کے بعد اب خواجہ تعریف گلشن المعروف طیفی بٹ کے بہنوئی اور بالاج قتل کیس کے نامزد ملزم جاوید بٹ کو کینال روڈ پر دن دیہاڑے قتل کردیا گیا ہے ۔یوں تین دہائیوں سے جاری اس خاندانی دشمنی کے نتیجے میں ایک کے بعد ایک قتل ہورہا ہے ،لیکن لاہور پولیس ہے کہ خاموش تماشائی بنی مرنے والوں کو مرتا دیکھ رہی ہے ۔ جاوید بٹ کا قتل طیفی بٹ کے لیے ویسے ہی بڑے صدمے کا باعث ہے جیسے شاہ عالمی کے امیر بالاج کا قتل اُس کی فیملی کے لیے تھا اور اب اس کے بعد کس کی باری ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو آج اس خاندانی دشمنی بارے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ جو رویہ اب تک اختیار کیا گیا ہے اس کے مطابق تو یہ جنگ اب رکنے والی نہیں ۔
لاہور میں خاندانی دشمنیوں کی روایت بڑی پرانی ہے اور اس کے تانے بانے قیام پاکستان سے پہلے سے جاملتے ہیں ،لیکن قیام پاکستان کے بعد جب کشمیری خاندان اور یہاں موجود ارائیں برادری کے مفادات متصادم ہوئے تو ایسی لرائیوں میں شدت آگئی ایسی ہی ایک لڑائی شیخ اصغر (مسلم لیگ ن کے راہنما راحیل اصغر کے والد ) اور میاں اخلاق گڈو کے والد معراج الدین المعروف ماجا سکھ گروپوں کے مابین رہی ، نورا کشمیری اور بابر بٹ دشمنی مین بھی ابھی تک ڈیڑھ درجن افراد مارے جاچکے ہیں( کہا جاتا ہے کہ نورا کشمیری گروپ کو طیفی بٹ اور بابر بٹ کو ٹیپو ٹرکاں والے کی حمایت حاصل تھی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جاوید بٹ کے قتل میں نامزد ملزم اصغر بٹ مرحوم بابر بٹ کا بھائی ہے ) کسی زمانے میں سیٹھ عابد کا بھی ان لڑائیوں میں عمل دخل رہا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خاندانی دشمنیاں بھی سامنے آئیں ۔ہنجروال کے شاہ گروپ اور رشید بھٹی گروپ کی لڑائی میں 80 کے قریب لقمہ اجل بنے ،کالو شاہ پوریا اور عارف حویلیاں والا کی لڑائی میں 50 کے قریب افراد قتل ہوئے کٹھا اور راجپوت برادریوں کی بھی لڑائی میں 80 کے قریب افراد مارے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس سال میں 800 افراد صرف لاہور میں ان خاندانی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھے کچھ کے چرچے ہوئے اور کچھ گمنام ہی ان لڑائیوں میں مارے گئے ۔ ان لڑائیوں میں سے سب سے خطرناک اور آج تک جاری رہنے والی لڑائی یا دشمنی طیفی بٹ اور بلا ٹرکاں والا کے مابین ہے گو بلا پہلوان (والد ٹیپو پہلوان ، دادا امیر بالاج ) کے والد نتھو پہلوان بھی قتل ہوئے تھے لیکن یہ اس موجودہ لڑائی کا شاحسانہ نہیں تھا ، موجودہ خاندانی دشمنی کا آغاز تو موچی گیٹ میں ایک چھوٹے سے پلاٹ کے جھگڑے سے اس کا آغاز ہوا جو بڑھتے بڑھتے خاندانی دشمنی میں تبدیل ہوا۔ پہلے بلا پہلوان اپنے ڈیرے پر بیٹھا قتل کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے یہ قتل انڈر ورلڈ کے دو بدمعاشوں حنیفا (حنیف ) اور بابا (شفیق) نے کیا اور اس کا الزام خواجہ تعریف گلشن کے سر لگا جو اس وقت اکبری منڈی میں کاروبار اور ٹرکوں کے اڈوں کے سرپرست تھے۔ یوں اس کھیل میں مزید تیزی آئی اسلحے کی سمگلنگ عروج پر تھی اور ٹرک اڈوں پر چیکنگ صرف منتھلی کی جاتی تھی۔ اسی اثنا میں جب ٹیپو پہلوان کی جانب سے جواب دینے کی تیاری ہوئی تو بلا پہلوان کے منہ بولے بیٹے یا شاگرد چاند پہلوان کو راوی روڈ کے علاقے میں قتل کردیا گیا ، دونوں جانب سے کارندے جان کی بازی لگاتے رہے حنیفا ، بابا بھی قتل ہوئے اور یوں یہ دشمنی پروان چڑھنے لگی 2010 میں لاہور ائر پورٹ پر کرائے کے قاتل کے ذریعے عارف میر المعروف ٹیپو ٹرکاں والے کو قتل کردیا گیا ۔
اس قتل کے بعد دشمنی میں مزید شدت آگئی تعریف گلشن ملک سے باہر چلے گئے لیکن دشمنی کی آگ نہ بجھی اور پھر یہ آگ تیسری نسل کو بھی لے گئی۔ ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج کو شادی کی تقریب میں گولیوں سے بھون دیا گیا اس قتل نے ایک بات پھر بجھتی آگ کو چنگاری دکھائی امیر بالاج کے قتل کا الزام طیفی بٹ اور گوگی بٹ پر لگا جبکہ بالاج کا دوست احسن شاہ مخبری کے الزام میں پکڑا گیا جسے چند روز قبل ہے پولیس کی حراست میں قتل کیا گیا اور الزام اس کے سگے بھائی پر لگادیا گیا لیکن قتل کا یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں اور اب طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو مسلم ٹاون کے قریب قتل کردیا گیا
جاوید بٹ کے قتل کا مقدمہ تھانہ اچھرہ میں درج کر دیا گیا، مقدمہ مقتول جاوید بٹ کے بیٹے حمزہ جاوید کی مدعیت میں درج کیا گیا،مقدمہ میں چار افراد کے خلاف قتل ، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا،قتل کے مقدمہ میں مقتول امیر بالاج کے چھوٹے بھائی امیر فتح اورمقتول امیر بالاج کے خاندانی دوست قیصر بٹ (بابر بٹ کا بھائی )کو بھی نامزد کر دیا گیا ہے ،نامزد قیصر بٹ سابق پی پی رہنما اسرار بٹ کے سگے بھائی ہیں ۔جاوید بٹ کے قتل کے مقدمہ میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے ۔ اب تک ہونے والے ان تمام قتلوں کو جو کہ سرعام کیے گئے۔ان میں کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی جب قانون سزا دینے میں ناکام ہوگا تو جرم خود ہتھیار اٹھائے گا کہیں ایسا تو نہیں کہ خاندانی دشمنیوں میں پولیس افسران کی دیہاڑیاں بن رہی ہیں ؟
اب خبر آئی ہے کہ جائے وقوعہ کے قریب لگے سیف سٹی کے کیمرے نان آپریشنل تھے یا کیے گئے تھے ،کیمرے بند ہونے کی وجہ سے واضع فوٹیجز تاحال نہیں مل سکیں ،تفتیش کے لیے سی آئی اے اور انویسٹیگیشن کی چار ٹیمیں تشکیل دیدی گئیں جاوید بٹ کو قتل کرنے والوں نے تیس بور پستول استعمال کیا ، دائیں جانب سے پیٹ میں لگنے والی گولیاں موت کی وجہ بنیں، یہ ہے پولیس کی کارکردگی ۔
قتل پہ قتل اور کتنے قتل؟ جب تک حکومت سیاسی اور پولیس اپنی پشت پناہی ختم نہیں کرئے گی موت کا یہ کھیل چلتا رہے گا۔ جو بھی پرچوں میں نامزد ہوگا اُس کی جان کو خطرہ ہوگا کرائے کے قاتل کرائے کے مکان سے بھی سستے میں دستیاب ہوں اور کیمرے بند ملیں تو کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ لے سکتا ہے ۔