ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بلوچ رہنماءاختر مینگل کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونےکا اعلان

بلوچ رہنماءاختر مینگل کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونےکا اعلان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: بلوچ رہنماءاختر مینگل نےقومی اسمبلی سے مستعفی ہونےکا اعلان کردیا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے استعفے پر پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا،میں اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتاہوں ۔ یاد رہے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے،گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل 2024 اور نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2024 منظور کرلیے گئے،ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل کے مطابق الیکٹرانک جرائم کے کیسز اب عدالتوں کے بجائے ایپلٹ ٹربیونل سنیں گے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایپلٹ ٹربیونل 3 ارکان پر مشتمل ہوگا، عدالت عالیہ کا ریٹائرڈ جج یا 15 سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا ٹربیونل چیئرمین ہوگا۔  وفاقی حکومت کو ٹربیونل ارکان کی تعداد میں اضافے یا کمی کا اختیار ہوگا، ٹیلی کمیونیکیشن اپلیٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے۔

بل کے مطابق ٹربیونل کو کسی بھی شخص کی طلبی اور دستاویزات وصولی کا اختیار ہوگا، ٹربیونل کے چیئرمین اور ارکان کے عہدے کی مدت 4 سال ہوگی جبکہ ٹربیونل کے اراکین کی عمر 64 سال سے زائد نہیں ہوگی۔عدالت میں زیر سماعت متعلقہ کیس ایک ماہ میں ٹربیونل کو منتقل ہوجائے گا، ٹربیونل فیصلے کے خلاف اپیل 60 دن میں صرف سپریم کورٹ میں کی جاسکے گی۔  

قومی اسمبلی میں منظور ہونے والا نجکاری کمیشن ترمیمی بل وفاقی وزیر علیم خان نے پیش کیا، ایکٹ نجکاری کمیشن 2024 کے نام سے موسوم ہوگا جبکہ بل کے تحت نجکاری اپیلٹ ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔  اپیلٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے، ٹربیونل کے چیئرمین اور اراکین کی مدت ملازمت تین سال ہوگی اور ارکان کی عمر 65 سال سے زائد نہیں ہوگی۔ترمیمی بل کے مطابق عدالت عظمیٰ کا ریٹائرڈ جج ٹربیونل کا چیئرمین ہوگا، حکومت ایک چیئرمین، ایک تکنیکی رکن اور ایک عدالتی رکن پر مشتمل ٹربیونل تشکیل دے گی،وفاقی حکومت ٹربیونل کے چیئرمین یا رکن کو نوٹس پر برطرف کر سکے گی، ٹربیونل کے قیام کا مقصد منصفانہ اور شفاف طریقے سے نجکاری کا عمل مکمل کرنا ہے۔

 ٹربیونل کو تمام معاملات پر فیصلے دینے کا خصوصی اختیار حاصل ہوگا، ٹربیونل کو دیوانی عدالت کا اختیار بھی حاصل ہوگا، ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 دن کے اندر صرف سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکے گی جبکہ ایکٹ میں ترمیم سے نجکاری کے بروقت حل کو یقینی بنایا جاسکے گا۔