وسیم عظمت: آج جمعرات کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے متعلق سابق صدر عارف علوی کے ریفرنس کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد پارلیمنٹ کے ارکان پارلیمنٹ میں کسی قانون سازی اور دیگر امور میں اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کے لئے آزاد ہو گئے ہیں۔ اس فیصلہ پر مسلم لیگ نون کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے آئین کو عدالت میں ری رائٹ کرنے کے عمل کا خاتمہ قرار دیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے کے رہنما حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ لکھنے کے عمل کو غلط قرار دیا۔
مسلم لیگ کے سینیئر نائب صدر حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ فیصلے کو بنیاد بنا کر پنجاب میں ان کی منتخب حکومت کو گرایا گیا تھا اور ارکان پنجاب اسمبلی کی طرف سے ان کو دیئے جانے والے ووٹوں کو شمار کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
عثمان بزدار کا استعفیٰ اور حمزہ شہباز کی وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں کامیابی
حمزہ شہباز گزشتہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ سنہ 2022 میں پی ٹی آئی کی وفاق اور صوبہ میں حکومتیں غیر مقبول ہونے کے بعد جب پی ٹی آئی کی وفاق میں حکومت تحریک عدم اعتماد سے گر گئی تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی پارٹی کے لیڈر عمران خان کے کہنے پر 28 مارچ کو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس استعفے کے بعد حمزہ شہباز نے پی ٹی آئی کے 20 ارکان کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں 197 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے امیدوار کو شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ کئی تنازعات کے بعد وہ 30 اپریل 2022 کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے حلف اس وقت کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجا پرویز اشرف نے لیا تھا کیونکہ پنجاب کے گورنر عمر چیمہ اور صدر عارف علوی عدالت کے حکم کے باوجود ان سے حلف نہیں لے رہے تھے۔ اس کے بعد عدالت کے حکم پر قومی اسمبلی کے سپیکر نے عدالت کے طے کردہ وقت پر ان سے حلف لے کر انہین وزیر اعلیٰ بنا تو دیا لیکن عدالتوں میں غیر معمولی رکاوٹیں کھڑی کر دیئے جانے کے سبب انہیں اس عہدہ پر کام کرنے کا موقع چند ہفتے ہی مل سکا تھا۔
عارف علوی کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس
30 اپریل کو حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو اس کے ڈھائی ہفتے بعد ہی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی متنازعہ تشریح کر کے پارٹی قیادت کے حکم سے انحراف کرنے والے ارکان اسمبلی کے ووٹ کو منسوخ قرار دے کر ایک بار پھر حمزہ کی حکومت کی بنیاد ہلا دی۔
اس وقت کے صدر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک سمری کو کو بنیاد بنا کر 21 مارچ 2022 کو سپریم کورٹ کو ایک ریفرنس بھیجا تھا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 17 مئی 2022 کو سنا دیا۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بیس سے زائد اراکین قومی اسمبلی کے پارٹی پالیسیوں سے اختلاف کے نتیجے میں جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو محسوس ہوا کہ وہ ایوان میں عددی اکثریت کھو رہے ہیں اور ان کے وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے کے امکانات کم ہیں تو انھوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو ایک سمری بھیجی تھی کہ آئین کے ارٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے۔
صدر مملکت نے 21 مارچ کو اس آئینی نقطے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کے ارٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس صدارتی ریفرنس کا خود عمران خان کوتو کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ قومی اسمبلی میں عمران خان سے بغاوت کرنے والے ارکان اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ ڈالا ہی نہیں تھا۔ تاہم بعد میں اس ریفرنس سے ہونے والی آرٹیکل 63 اے کی وہ تشریح جسے آج کالعدم قرار دیا گیا، حمزہ شہباز کی حکومت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوئی۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کو لے کر حمزہ کے مخالفوں نے ایک بار پھر عدالتی جنگ لڑی اور پنجاب مین وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے ووٹنگ دوبارہ کرانا پڑی۔
حمزہ شہباز کو آرٹیکل 63 کی متنازعہ تشریح نے وزیراعلیٰ بنوایا، تشریح کی دوبارہ تشریح نے وزارت اعلیٰ چھین لی
حمزہ شہباز 23 جولائی 2022 کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے رن آف الیکشن میں تین ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی، اور پی ٹی آئی اور پی ایم ایل کیو کے مشترکہ امیدوار پرویز الٰہی کو شکست دے کر صوبائی چیف ایگزیکٹو کا عہدہ برقرار رکھا تھا۔ انہیں پنجاب اسمبلی میں بہت کشیدہ ماحول میں ہونے والی ووٹنگ میں مسلم لیگ قاف کے اندر تقسیم کی بدولت چوہدری شجاعت حسین کے حامی ارکان پنجاب اسمبلی کے ووٹوں کی بدولت اور چوہدری شجاعت کے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے حمزہ شہباز کے خلاف جانے والے دس ووٹوں کو شمار نہ کرنے کی درخواست پر عملدرآمد کی بدولت یہ کامیابی ملی تھی کیونکہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے ریفرنس پر ججوں کی رائے کہ کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے فیصلہ کے برعکس ووٹ نہیں دے سکتا، اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی کے لیڈر کی ہدایت کے برعکس کسی کارروائی میں ووٹ دے تو اس کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، آئین کے آرٹیکل 63-A کی تشریح کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں چوہدری شجاعت کے خط نے PMLQ کے 10 ایم پی ایز کے ووٹ غیر موثر اور مسترد کر دیے تھے۔ اپوزیشن کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیےتھے جو حمزہ شہباز سے سات ووٹ زیادہ تھے جنہوں نے 179 ووٹ لیے تھے۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ایم ایل کیو کے ووٹوں کو مسترد کر دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف قانون سازوں کے ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جائے گا اور ایسے قانون سازوں کو بھی ڈی سیٹ کر دیا جائے گا۔
ڈپٹی سپیکر کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں حمزہ شہباز پنجاب کے چیف منسٹر بن گئے تھے لیکن بعد میں انہیں عدالتی فیصلہ نے وزارت اعلیٰ سے محروم کر دیا تھا۔ حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی بعد میں بھی کبھی پارلیمانی لیڈر اور اس کے سرپرست چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ نہیں رہے تاہم آئین کی آج کالعدم قرار دی جانے والی "تشریح کی دوبارہ تشریح "نے ہی حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بننے کے کچھ روز بعد وزارت اعلیٰ سے محروم کر دیا تھا۔
حمزہ شہباز کے مخالف پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے 3 جولائی کے رن آف الیکشن میں مسلم لیگ قاف کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے حکم کے خلاف جانے والے ارکان اسمبلی کے ووٹ شمار نہ کرنے کی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جہاں آرٹیکل 63 کی اب کالعدم ہونے والی تشریح کا فیصلہ دینے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ کیس سنا اور اپنے فیصلہ کی دوبارہ تشریح کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ سے محروم کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 26 جولائی کو چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے فیصلے اور ڈپٹی سپیکر کی آئین کے آرٹیکل 63A(1)(b) کی "فہم اور عمل درآمد" کو "غلط " (incorrect and erroneous) قرار دیتے ہوئے حمزہ شہباز کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس فیصلہ کے نتیجے میں چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔ اس فیصلے نے مخلوط حکومت کو ایک بڑا لیکن متوقع دھچکا پہنچایا تھا۔
اس فیصلہ سے پہلے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیلوں نے عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس فیصلہ کو پنجاب میں جوڈیشل کو قرار دیا تھا۔