ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کالعدم؛ سپریم کورٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ کو ضمیر کی آزادی کے مطابق ووٹ دینے کا حق واپس دے دیا

 آرٹیکل 63 اے کی تشریح کالعدم؛ سپریم کورٹ نے ارکانِ پارلیمنٹ کو ضمیر کی آزادی کے مطابق ووٹ دینے کا حق واپس دے دیا
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے  کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں  کسی پارٹی کے ارکان کی کسی بھی معاملہ پر  اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی آزادی بحال کر دی اور منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

 چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔چیف جسٹس پاکستان نے نظرثانی اپیلی کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پرمنظورکی جاتی ہے، کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیس پر  جسٹس مظہر عالم کا اختلافی نوٹ 30 جولائی کو آیا جبکہ بینچ کی اکثریت نے تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر کو جاری کیا، جسٹس مظہرعالم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے؟ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے وہ کسی کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔

 سپریم کورٹ میں اس کیس کی آخری سماعت کے دوران  بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنے مؤکل کی ہدایت پر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تاہم انہیں عدالت نے عدالتی معاون قرار دے دیا تو انہوں نے عدالتی معاون کی حیثیت سے اپنے دلائل دیئے۔ 

علی ظفر کا کہنا ہے کہ نظرثانی شدہ کیس آئینی ترامیم کے پیکیج سے منسلک ہے: سپریم کورٹ کا حکومت کے حق میں فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کا باعث بنے گا۔  چیف جسٹس   عیسیٰ  نے قرار دیا کہ ججز رکن پارلیمنٹ کے انحراف پر فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں۔  جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق قانون ساز کا ہے سیاسی جماعت کا نہیں۔   
 

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے؟  علی ظفر نے کہا ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہوسکتی، اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو صرف صدر پاکستان ہی رجوع کر سکتے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی۔ علی ظفر نے کہا کہ ہم نے فلور کراسنگ پر تاحیات نااہلی مانگی تھی، اس پر عدالت نے کہا آپ اس پر پارلیمان میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔

 
’صبا قمر پسندیدہ ہیں‘، بھارتی گلوکار نے اداکارہ سے فرمائش کردی
 
 

چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اس عدالت کو طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھی یا فیصلہ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس سے کہا کہ میرا مشورہ ہوگا کہ آپ تمام ججز آپس میں مل کر بیٹھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں مفت کا مشورہ دے رہے ہیں تو ایک مفت کا مشورہ ہمارا بھی ہے آپ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات طے کرلیں۔ اس بات پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس جمال نے علی ظفر سے کہا کہ آپ نے جو مشورہ دیا ہے اس پر غور کریں گے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ ادارہ ٹوٹ گیا ہے واضح کر دوں ہمارے ادارے کے اندر کچھ نہیں چل رہا تاہم کسی نکتے پر دو آراء ہوسکتی ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ اگر تحریک انصاف ہارس ٹریڈنگ کو روکنا چاہتی تو ترمیم لا سکتی تھی جہاں ووٹ نہیں گنا جانا وہ آئین میں لکھا ہوا ہے، عدم اعتماد پر گنتی کے وقت تحریک انصاف کے لیڈر کو ووٹنگ کا خیال آیا، عدم اعتماد میں ووٹنگ کے وقت عدالت کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی عدم اعتماد میں فلور کراسنگ نہیں ہوئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس تشریح کے ذریعے ججز نے آئین کو دوبارہ لکھا؟ جو ترمیم پارلیمان کے ذریعے نہیں کرپائے وہ ججز کے ذریعے کردی، ایک صوبے میں دس دن ایک حکومت پھر دوسری چلتا رہی، کیا آئین کو دوبارہ لکھنا ہی نظر ثانی کیلئے کافی نہیں؟

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ جج صاحب نے تو سارا کیس کھول کر رکھ دیا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ صدر کے ذہن میں آنے والا سوال پارلیمان کو کیوں نہیں بھجوایا گیا؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدلیہ کے اثرات چیف جسٹس کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہمارے ملک میں نظام کو بننے دیں کل یہاں عدالت میں ایک وکیل صاحب نے کہا باہر 300 وکیل بیٹھے ہیں فیصلہ کرکے دکھائیں، کیا ججز سے خوف زدہ کرکے فیصلے لینے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی ’’وہ چھا گیا‘‘ ’’اس نے ٹھاہ کردیا‘‘ چلتا ہے یہاں ہمیں بلا خوف و خطر اپنے فیصلے کرنے ہیں، اس نظام کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ارکان اسمبلی کوووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے،ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس حساب سے توپارٹی کیخلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے،ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے،

ایک نجی نیوز چینل کی روپرٹ کے مطابق 63اے نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایک جج کون ہوتا ہے طے کرنے والا کہ کسی رکن نے انحراف کیا؟یہ اختیار تو پارلیمانی پارٹی سربراہ کاہوتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے،یہ حق سیاست جماعت کا حق کیسے کہلا سکتا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے فاروق نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا،چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے استفسار کیا کہ بتائیں پارلیمانی پارٹی اور پارلیمانی لیڈر میں کیا فرق ہے؟فاروق نائیک نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی الیکشن ہوتے ہیں،پارٹی الیکشن میں پارٹی سربراہ کافیصلہ ہوتا ہے۔

علی ظفر نے کہاکہ ارکان اسمبلی کوووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے،ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے،چیف جسٹسے کہاکہ اس حساب سے توپارٹی کیخلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے،ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے۔ 
 علی ظفر نے کہاکہ یہ امید ہوتی ہے کہ شاید ڈی سیٹ نہ کیا جائے اور نشست بچ جائے،عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو ووٹ کے  حق کا ناجائزہ فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے،چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یہ تشریح جمہوری ہے؟

 اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو ویڈیو لنک پیشی کی اجازت نہ دینے پر وکیل علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا جس پر سپریم کورٹ نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کی اپنے مؤکل سے ملاقات ہوگئی جس پر انہوں نے جواب دیا ’جی بالکل گزشتہ روز ملاقات ہوئی لیکن ملاقات علیحدگی میں نہیں تھی، جیل حکام بھی موجود رہے۔

 عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں:بیرسٹر علی ظفر 

 بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں، بانی پی ٹی آئی وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں گذارشات رکھنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے انہیں ہدایت دی کہ اچھا آگے چلیں، دلائل شروع کریں،علی ظفر نے کہا کہ نہیں پہلے عمران خان عدالت میں گذارشات رکھ لیں، پھر میں دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ سینئر وکیل ہے، آپ کو معلوم ہے عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔

 علی ظفر نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کو بینچ پر کچھ اعتراضات ہیں، عمران خان کی وڈیو لنک پر پیشی کی اجازت نہیں دیتے تو انہوں نے کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے، میں نے اپنے مؤکل سے ہی ہدایات لینی ہیں، ہدایت کے مطابق چلنا ہے۔

  علی ظفر صاحب آپ صرف اپنے مؤکل کے وکیل نہیں:چیف جسٹس 

 چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ صرف اپنے مؤکل کے وکیل نہیں، آفیسر آف دا کورٹ بھی ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم بھی وکیل رہ چکے ہیں، اپنے مؤکل کی ہر بات نہیں مانتے تھے، جو قانون کے مطابق ہوتا تھا وہی مانتے تھے۔

 علی ظفر نے کہا کہ اگر عمران خان کو اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے، حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کررہے تاکہ کل سرخی لگے جس پر علی ظفر نے کہا کہ آج بھی اخبار کی ایک سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا معلوم نہیں،علی ظفر نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم لارہی ہے اور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں، کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا، آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں، ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر بہت بھاری بیان دے رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔

 عدالت نے 63 اے پر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں: جسٹس جمال مندوخیل 

 علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے 63 اے پر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں۔

 بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا

 بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کردیا، انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے بینچ کی تشکیل درست نہیں، حصہ نہیں بنیں گے۔

 علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ آپ اگر کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو مفادات کا ٹکراؤ ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ بول رہے ہیں اس کو سنیں گے اور نہ ہی ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا ہم آپ کو عدالتی معاون مقرر کردیں، آپ کو اعتراض تو نہیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد عدالت نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

 علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں بینچ قانونی نہیں، اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں، نام لیے بغیر آگے بات کریں۔

 جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں رائے ہے، تو اس پر عملدرآمد کیسے ہو رہا ہے، کیا صدر نے کہا تھا یہ رائے آگئی ہے، اب ایک حکومت کو گرا دو؟

 چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ کو یاد ہے حاصل بزنجو نے ایک سینیٹ الیکشن پر کیا کہا تھا، سینیٹ جیسے ادارے میں الیکشن کے دوران کیمرے لگائے گئے، علی ظفر صاحب آپ کیوں ایک فیصلے سے گھبرا رہے ہیں۔

 آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کر سکتے ہیں: قاضی فائز عیسیٰ

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کر سکتے ہیں جس پر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کردیا۔

 علی ظفر نے کہا کہا 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی، اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہو سکتی، صرف صدر پاکستان ہی اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو رجوع کر سکتے تھے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے فلور کراسنگ پر تاحیات نااہلی مانگی تھی، اس پر عدالت نے کہا آپ اس پر پارلیمان میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اس عدالت نے طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھے یا فیصلہ، چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔

 جسٹس جمال مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں اور جسٹس میاں خیل پہلے والے بینچ کا بھی حصہ تھے، ہم دونوں ججز پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، علی ظفر نے جواب دیا کہ اعتراض کسی کی ذات پر نہیں بلکہ بینچ کی تشکیل پر ہے۔

 علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ بار کی اصل درخواست تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ سے متعلق تھی، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو غلط طور پر ایک ساتھ جوڑا، عدالت نے آئینی درخواستیں یہ کہہ کر نمٹا دیں کہ ریفرنس پر رائے دے چکے ہیں، نظر ثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔

 ہر ڈکٹیٹر کہتا ہے تمام کرپٹ ارکان، اسمبلی اور ایوان کو ختم کر دوں گا:چیف جسٹس

 چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی آئین یا سزائے موت سے ناخوش ہوسکتا ہے لیکن عملدرآمد کرنے کے سب پابند ہوتے ہیں، کیا کوئی جج حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہے آئین کی اس شق سے خوش نہیں ہوں، ہر ڈکٹیٹر کہتا ہے تمام کرپٹ ارکان، اسمبلی اور ایوان کو ختم کر دوں گا، سب لوگ ملٹری رجیم کو جوائن کر لیتے ہیں، پھر جمہوریت کا راگ شروع ہو جاتا ہے۔

 علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں دیئے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے، کسی بنیادی حق کے اصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا، آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے، یہ نہیں لکھا کہ جماعت الیکشن بھی لڑسکتی ہے۔

 علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا، بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی، عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں کہا گیا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے، پارٹی سربراہ کا اختیار ہے وہ کسی کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔

 جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے، علی ظفر نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے، یہ حق سیاسی جماعت کا حق کیسے کہا جاسکتا ہے، علی ظفر نے کہا کہ اسی مقصد کیلئے پارلیمانی پارٹی بنائی جاتی ہے۔

  ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوری ہوگا، جج تو منتخب نہیں ہوتے:چیف جسٹس کااستفسار

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوری ہوگا، جج تو منتخب نہیں ہوتے، انحراف کے بعد کوئی رکن معافی مانگے تو ممکن ہے پارٹی سربراہ معاف کردے، علی ظفر نے جواب دیا کہ تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔

 علی ظفر نے کہا کہ 63 اے کے فیصلے میں لکھا ہے ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ غلط الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جج صرف یہ طے کر سکتا ہے کوئی چیز آئینی و قانونی ہے یا نہیں، یہ کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے کینسر ہے یا نہیں،علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ اس حساب سے تو پارٹی کیخلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے، ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، اگر کوئی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو مستعفی ہوسکتا ہے.

 علی ظفر نے کہا کہ یہ امید ہوتی ہے کہ شاید ڈی سیٹ نہ کیا جائے اور نشست بچ جائے، عدالت نے قرار دیا کہ کسی کو ووٹ کے حق کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ تشریح جمہوری ہے؟ ججز منتخب نہیں ہوتے انہیں اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو جمہوریت کے بالکل خلاف بات کر رہے ہیں، تاریخ یہ ہے کہ مارشل لاء لگے تو سب ربڑ سٹیمپ بن جاتے ہیں۔

 جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی، تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی، اس وقت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا، اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ریفرنس دائر کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد اڑا دی، یہاں چیف جسٹس سے کچھ ججز نے رابطہ کیا تو سوموٹو لیا گیا۔

 چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 63 اے کا فیصلہ صرف ایک جج کے مارجن سے اکثریتی فیصلہ ہے، کیا ایک شخص کی رائے پوری منتخب پارلیمان پر حاوی ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمان کو اگر یہ تشریح پسند نہ ہو تو وہ کوئی دوسری قانون سازی کر سکتی ہے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت اس لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی، جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ کل یہاں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دے کر دیکھیں، کیا ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلہ لیں گے۔

 اداروں کو اہم بنائیں، شخصیات کو نہیں:جسٹس نعیم اختر 

 جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہوتا ہے فلاں جج نے ایک ٹھاہ کردیا، فلاں نے وہ ٹھا کر دیا، اداروں کو اہم بنائیں، شخصیات کو نہیں،علی طفر نے کہا کہ جو کچھ باہر چل رہا ہے اس پر میں آنکھیں بند نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ میں اندر کی بات بتا رہا ہوں، اندر کچھ نہیں چل رہا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کچھ ترامیم پر بات چل رہی ہے تو آپ بھی بیٹھ کر اپنا ڈرافٹ دیں۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ پھر کہہ دیا جائے گا آپ نے مشورہ دیا ہے، ہم صرف ساتھ بیٹھنے کا کہہ رہے ہیں، بیٹھ کر جو مرضی کریں۔

 علی ظفر نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ بھی آپس میں بیٹھ کر ججز روولز بنا لیں، سکون ہو جائے گا، میں نے ساڑھے 11 بجے کے بعد جو بھی گفتگو کی وہ بطور عدالتی معاون کی، بطور وکیل بانی پی ٹی آئی، میں کیس کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں، عدالتی معاون علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔